لاہور/ڈیرہ غازی خان:پنجاب کے سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، انتظامات نہ ہونے کے باعث بچوں اور بڑوں میں جلدی امراض سمیت مختلف بیماریاں پھیلنے لگیں۔لاہورکے علاقے چوہنگ میں کھلے آسمان تلے سیلاب متاثرین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا جہاں بچوں میں خارش اور دیگر امراض پھیل رہے ہیں۔
بچوں کے لیے دودھ بھی دستیاب نہیں، مائیں کہتی ہیں خالی فیڈر میں پانی ڈال کر بچوں کو پلا رہے ہیں جس سے بچوں کو الٹیاں لگ گئی ہیں۔چوہنگ لاہورکے ایک ریلیف کیمپ میں 2 ماہ کے شیر خوار کی آنکھوں سے خون نکل رہا ہے، خود خواتین کو بھی جلدی امراض کا سامناہے۔
ماؤں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں اور کدھر جائیں، خواتین کا کہنا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کاکہیں کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا جس کی وجہ سے ادویات بھی اثر نہیں کر رہی ہیں۔ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ روزگار کے لیے جو ایک رکشہ تھا وہ بھی پانی میں ڈوب کر خراب ہوگیا۔
ادھردریائے راوی کے اطراف کی بستیوں میں واقع سرکاری اسکولوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ۔جماعتی کمروں کے اندر بلیک بورڈ اور بنچوں کی جگہ گدے، کپڑوں کے بنڈل اور برتن رکھے ہیں، یہ وہ مختصر سامان ہے جو لوگ پانی کے گھروں اور کھیتوں کو نگل جانے سے پہلے بچانے میں کامیاب ہوئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے اسکولوں میں 18 امدادی کیمپ قائم ہیں، جن میں کم از کم 4 ہزار 150 افراد مقیم ہیں، اس وقت ساندا، بابو صابو، گلشنِ راوی اور شیرکوٹ کے 5 کیمپوں میں 900 افراد، تحصیل رائیونڈ کے علاقوں منگا ہتھر اور محلنوال کے 3 کیمپوں میں 2 ہزار 350 افراد، تحصیل راوی کے علاقوں شاہدرہ، جیا موسی اور ہربو جبو میں 800 افراد ہیں جبکہ تحصیل علامہ اقبال ٹائون کے علاقوں چوہنگ، شاہ پور، نیاز بیگ اور مریدوال میں 100 افراد مقیم ہیں۔
ادھرڈیرہ غازی خان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ڈوبی سڑکوں اور ٹوٹے راستوں نے متاثرہ خاندانوں کو کشتیوں کا محتاج بنا دیا ہے۔ضروریات زندگی کے لیے لوگ پرائیویٹ کشتیوں پر سفر کرتے ہیں جس سے اگرچہ ملاحوں کی آمدنی بڑھ گئی ہے مگر بے بس خاندانوں کی آزمائشیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں کچے کے سیلاب زدگان بیماروں کو ہسپتال لے جانے سے لے کر بچوں کے لیے کھانے پینے کا سامان لانے تک، ہر ضرورت کے لیے انہی کشتیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ملاح کہتے ہیں کہ روزگار تو مل گیا ہے مگر غریب خاندانوں کو بار بار پانی کے رستے عبور کرتے دیکھ کر دل دکھتا ہے۔