نیویارک:اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں ایک بھی غیر مسلم دہشت گرد شامل نہ ہونا ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ طرزِ عمل دنیا کو منقسم کرتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف اجتماعی کوششوں کو کمزور کرتا ہے۔
سلامتی کونسل میں ”دہشت گردی سے عالمی امن کو لاحق خطرات” کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ غیر مسلم انتہا پسند اکثر احتساب سے بچ نکلتے ہیںجبکہ مسلم افراد پر یکطرفہ توجہ دوہرے معیار کی عکاسی ہے۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو غیر جانبدارانہ، اصولی اور شفاف ہونا چاہیے۔سفیر نے خبردار کیا کہ دہشت گرد گروہ اب ڈیجیٹل اسپیس میں متحرک ہو چکے ہیں، جہاں سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کمزور طبقات، خصوصاً نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کو بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے دائرہ کار میں رکھا جائے۔عاصم افتخار احمد نے پاکستان کو درپیش خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی، بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون علاقائی و عالمی امن کے لیے سنگین چیلنج ہے۔
ان گروہوں کی سرگرمیاں افغان سرزمین سے جاری ہیں جو پاکستان کی قومی سلامتی پر براہ راست حملہ ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور بلوچ جنگجو اب بھی افغان علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش اب بھی عراق، شام اور افغانستان میں ایک فعال خطرہ ہے، جہاں ہزاروں جنگجو موجود ہیں۔سفیر نے بھارت پر براہ راست الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بھارت نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستانیوں کو نشانہ بناتا ہے۔
انہوں نے رواں سال مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستانی عوام اور انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنانے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں 54 بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔سفیر نے واضح کیا کہ ریاستی دہشت گردی کو انسدادِ دہشت گردی کا نام دینا خطرناک رجحان ہے، جس پر سلامتی کونسل کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ قبضہ اور ظلم کو کسی صورت انسدادِ دہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔آخر میں پاکستانی مندوب نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک جامع، منصفانہ اور مستقل حکمت عملی اپنائی جائے جو دوہرے معیارات سے پاک ہو اور اسلامی دنیا کو بدنام کرنے کے سلسلے کو روکے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی امن تب ممکن ہے جب انصاف کے ساتھ اجتماعی طور پر دہشت گردی کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔