کراچی(بی بی سی رپورٹ)”ہم ائیرپورٹ پر نو گھنٹے سے زیادہ پھنسے رہے۔ ایک بار نکلنے کی کوشش کی تو ایئرپورٹ کے اطراف پر سیلاب کا منظر تھا۔ اچانک پھر بارش شروع ہو گئی تو پانی گاڑی کے اندر تک آ گیا۔
بڑی مشکل سے واپس ائیرپورٹ پر لوٹ آئے۔ اتنے لوگ پھنس چکے تھے کہ کھانے کو کچھ نہ ملا۔ فجر کے وقت گھر پہنچے تو معلوم ہوا بجلی کل سے اب تک نہ آئی۔
زوبیا حسن بھی ان افراد میں شامل ہیں جو کراچی میں منگل کی شب ہونے والی بارش سے متاثر ہوئے۔ عام دنوں میں آدھے سے پونے گھنٹے میں طے ہونے والا راستہ انھوں نے کئی گھنٹوں میں طے کیا۔
اس ایک روز کی بارش سے کراچی کی سڑکوں پر شہری کئی گھنٹے پانی کی نکاسی نہ ہونے کے باعث پھنسے رہے اور انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم فراہمی نے بھی لوگوں کو کوفت میں مبتلا کیے رکھا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نکاسی آب کی صورتحال میں بہتری کیوں نہیں آ سکی؟ اس پر بات آگے چل کر لیکن پہلے شامل کرتے ہیں بارش سے متاثرہ بعض افراد کی مشکلات جس کا ذکر انھوں نے اپنی گفتگو میں کیا۔
زوبیہ حسن جو سعودی عرب سے عمرے کی ادائیگی کے بعد کراچی آ رہی تھیں وہ بھی بارش کے باعث سڑکوں پر کھڑے پانی اور بدنظمی کا شکار ہوئیں۔ ایئرپورٹ سے نکل کر ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے میں گھومتے ہوئے انھوں نے ڈیڑھ گھنٹہ گزارا اور واپس ائیرپورٹ کی عمارت میں آ کر پناہ لی۔
تقریبا سوا پانچ بجے شام کو جہاز نے کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ جہاز سے نکل کر گھر والوں سے رابطہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ بارش بہت شدید ہوئی ہے اور ہم ایئرپورٹ لینے کے لیے پہنچ ہی نہیں پا رہے۔ میں نے گھر والوں سے کہا کہ آپ جہاں ہیں وہیں سے واپس گھر جائیں، ہم کیب سے آ جائیں گے۔
سامان لے کر جب ہم باہر آئے تو پتا چلا کہ ایئرپورٹ کی کیب سروسز بند ہیں۔ سوا چھ بجے ایک کیب بک ہوئی۔ وہ ہمیں لے کر نکلا مگرایئرپورٹ کے اطراف ہر جگہ اتنا پانی تھا اور اتنا ٹریفک تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
پہلے ہم نے حبیب یونیورسٹی کے راستے ٹرائی کیا وہ نہیں ہو سکا پھر چیک پوسٹ فائیو سے ٹرائی کیا وہ نہیں ہو سکا اور پھرساتھ ہی تیز بارش شروع ہوئی اور پانی گاڑی کے اندر تک آ گیا۔
ان کے مطابق ہر جگہ گھٹنوں گھٹنوں پانی تھا۔ ٹریفک جام تھا، ون وے روٹ تھا اور کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک رواں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میرے ساتھ میرا چھوٹا بچہ بھی تھا، مجھے گھبراہٹ شروع ہو گئی اور رونا آ گیا۔
ٹیکسی والے نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ ایئرپورٹ واپس جائیں کیونکہ وہ محفوظ جگہ ہے، جب تک پانی نہیں اتر جاتا۔ پانچ منٹ کے راستے کو ہم نے ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا۔ ایئرپورٹ پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ پھنسے ہوئے تھے اور کھانا پینا ریفریشمنٹ سب ختم ہو چکا تھا۔
انٹرنیٹ کی صورتحال خراب تھی، موبائل نہیں چل رہا تھا۔ صبح کے تین بجے پتا چلا کہ آرمی نے ایئرپورٹ کے اطراف علاقہ کلیئر کروا لیا ہے۔ پھر ہم نے کیب بک کی۔ اس وقت بھی جگہ جگہ پانی کھڑا ہوا تھا۔ میں فجر کے قریب اپنی والدہ کے ہاں گلشن معمار پہنچی کیونکہ میرے اپنے گھر میں کل صبح سے اب تک لائٹ نہیں ہے۔
انھیں شکوہ ہے کہ ہم اتنی لمبی فلائیٹ لے کر آئے تھے مگر ہماری مدد کو اور گائیڈ کرنے کو کوئی حکومتی نمائندہ موجود نہیں تھا، نہ ایئرپورٹ پر نہ باہر۔
خوشی خان کراچی کے ایک سکول میں ٹیچر ہیں اور آنے جانے کیلیے وہ بائیک کا استعمال کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ منگل کی دوپہر دو بجے کے قریب بارش کے بعد وہ دوستوں کے دفتر چلی گئیں اور بارش تھمنے کے بعد چار بجے یہ سوچ کر بائیک پر نکلیں کہ صورتحال بہتر ہوگئی ہوگی۔
تاہم جیسے ہی وہ شاہراہ فیصل پر بلوچ پل کے قریب پہنچیں تو بائیک بند ہوگئی اور پانی کی سطح ان کی کمر تک تھی جس کے بعد وہ بائیک کو دھکیلتی ہوئی دوبارہ دوست کے دفتر پہنچیں۔ اسی دوران دوبارہ بارش شروع ہوگئی۔
خوشی کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے کے قریب انھیں ایک آٹو رکشہ مل گیا جس پر سوار ہوکر وہ اپنے گھر کے لیے روانہ ہوئیں۔
شاہراہ فیصل پر پانی موجود تھا اور ڈرگ روڈ انڈر پاس بند تھا اس وجہ سے بھی ٹریفک سڑک کی دونوں اطراف ون وے بنا ہوا تھا آہستہ آہستہ ناتھا خان پل پہنچے جو بارش سے پہلے سے زیر تعمیر تھا وہاں اور رش لگ گیا۔
انھوں نے بتایا کہ شاہ فیصل ٹان پہنچے تو وہاں کافی پانی موجود تھا ایک جگہ گڑھا تھا جو رکشہ والے کو نظر نہیں آیا اور رکشہ الٹتے الٹتے بچا۔ آس پاس کے لوگوں نے سہارا دیا اس طرح جو راستہ آدھے گھنٹے کا ہے، تین گھنٹوں میں طے کیا۔
کراچی کی رہائشی عائشہ کلفٹن میں واقع ایک نجی ادارے میں کام کرتی ہیں۔ وہ ایک بجے ملیر میں واقع گھر کے لیے روانی ہوئیں تھیں۔
وہ عموما ریڈ بس میں سفر کرتی ہیں۔ ان کے مطابق موسم جیسے بارش کا ہوا وہ احتیاط دفتر سے جلدی نکل آئیں تاکہ گھر جلدی پہنچیں۔ جب وہ بس میں سوار ہوئیں تو بارش شروع ہو گئی لیکن بس چلتی رہی۔
ان کے مطابق جب وہ کالا بورڈ پر پہنچیں تو بس خراب ہو گئی اور لوگوں کو نکلنا پڑا۔ اس کے بعد کچھ دیگر خواتین کے ساتھ وہ پیدل روانہ ہوئیں لیکن پانی کی سطح کمر تک تھی اور بہا اتنا تیز تھا کہ پاں جم نہیں رہے تھے۔
ان کے مطابق ڈر تھا کہ پانی بہا نہ لے جائے۔ اس کے علاوہ بجلی کے کھمبوں اور گٹروں کا ڈر الگ تھا۔
کافی دیر چلنے کے بعد ایک پرائیوٹ بس ملی اور وہ اس میں سوار ہو کر آخرکار ملیر پہنچ گئیں۔ جو سفر ایک بجے شروع ہوا تھا وہ ساڑھے پانچ بجے ختم ہوا۔
معمول سے زیادہ بارش کے بعد اربن فلڈنگ کے باعث متعدد سڑکیں اور شاہراہیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں اور دفاتر اور کام سے واپس آنے والے سڑکوں پر پھنستے گئے۔ اور یوں یہ صورتحال سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ کرتی رہی۔
سماجی کارکن عمار علی جان نے اس صورت حال پر لکھا کہ کراچی کے مناظر اور خبریں دل دہلا دینے والی ہیں۔ ایک ایسا شہر جس کا حجم دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑا ہے اسے بے یاد و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کا احتساب کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ اس صورتحال سے صرف کراچی میں رہنے والوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کے شہریوں کو پریشان ہونا چاہیے۔
فرحان سعید نے لکھا کہ میرا دل کراچی کی اس صورتحال پر ٹوٹ گیا ہے۔ تاہم آپ سب ایک بار پھراسی صورت حال میں زندہ رہیں گے اور آپ کو ایسا ہی رکھا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں آپ لاہور کو دیکھیں تو آپ فرق کو محسوس کریں گے۔
کراچی میں فلاحی تنظیم ایدھی کے سربراہ فیصل ایدھی نے بتایا کہ بارش کے دوران کرنٹ لگنے، پانی میں ڈوبنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ پوری پوری موٹر سائیکلیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں جنھیں ریسکیو کرنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
ان کیمطابق ہماری ریسکیو کے لیے زیادہ گاڑیاں چھوٹی ہوتی ہیں تو جب سڑکوں پر تین سے چار فٹ پانی آتا ہے تو وہ گاڑیاں نہیں چل پاتیں اس لیے بارش کے پانی کی صورت میں عام دنوں میں چلنے والا 90 فیصد کے قریب نیٹ ورک بیٹھ جاتا ہے۔
ان کے مطابق پھر فلڈ ریسکیو والا نیٹ ورک متحرک ہوتا ہے تاہم اتنی بڑی آبادی میں ہم کیا اور کتنا کر سکتے ہیں کیونکہ ہر علاقے سے کالز آ رہی ہوتی ہیں۔
انھوں نے دعوی کیا کہ کراچی میں جتنی نئی سوسائٹیاں بنی ہیں انھوں نے نالے نہیں بنائے۔ تو بارش کی صورت میں سڑکیں نالے بن جاتی ہیں۔ تو پوری ماسٹر پلاننگ کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ نالوں کی جگہ جب بنگلے بن جائیں گے تو یہی ہو گا۔
فیصل ایدھی نے الزام عائد کیا کہ ہر سال انھی جگہ پر نالے بھرتے ہیں جہاں سب کو پتا ہے۔ وہ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ نالوں کے راستے سوسائٹیوں نے بند کر دیے ہیں۔ سو سو فٹ کے نالے ڈیفنس میں 40 فٹ کے کر دیے گئے اور ان پر بنگلے بنا دیے گئے۔
