اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے بااثر صارف گروپوں اور گیس یوٹیلیٹی سیکٹر کے درمیان 50 ارب روپے کے گیس بلنگ تنازع کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دے دیا۔
میڈیارپورٹ کے مطابق یہ تحقیقات سابق وفاقی سیکریٹری شاہد خان کی سربراہی میں ہوں گی جو انڈسٹریل اور سی این جی صارفین کی جانب سے شکایات موصول ہونے کے بعد کی جا رہی ہیں، ان صارفین کو 2015ء سے واجب الادا پرانے گیس واجبات کے اچانک بل موصول ہوئے تھے۔
ذرائع نے تصدیق کی کہ وزیرِ اعظم نے معاملے کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے، تنازع لاہور میں قائم سوئی ناردرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سے متعلق ہے جس نے اپریل 2015ء سے جون 2022ء تک کے عرصے کے لیے اوگرا کے اپ ڈیٹ شدہ نوٹی فکیشنز کی بنیاد پر نظرثانی شدہ بل جاری کیے ہیں۔
اوگرا کے ان نوٹی فکیشنز کے مطابق صنعتی شعبے پر 14 ارب 40 کروڑ روپے واجب الادا ہیں، پاور سیکٹر پر 40 ارب روپے (جو بالآخر بجلی صارفین کو ادا کرنے ہوں گے)، سی این جی کے شعبے پر 3 ارب 80 کروڑ روپے، فرٹیلائزر سیکٹر پر 2 ارب 40 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔
مجموعی طور پر تقریباً 59 ارب 80 کروڑ روپے واجب الادا ہیں جن میں سے 51 ارب 30 کروڑ روپے فرق کے گیس چارجز اور تقریباً 8 ارب روپے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) پر مشتمل ہیں، اس کے علاوہ تاخیر سے ادائیگی کے چارجز بھی شامل ہیں۔
یہ معاملہ خصوصاً صنعتی شعبے میں تشویش کا باعث بنا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں انہوں نے ان ادائیگیوں سے بچنے کے لیے عدالتی حکم امتناع حاصل کیے تھے۔
تقریباً 2 ہزار 950 صنعتی اور ایک ہزار 200 سی این جی صارفین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ان اضافی چارجز کو چیلنج کرنے کے لیے مضبوط قانونی جواز موجود ہے، ان گروپوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں انہوں نے یا تو برآمدات کیں یا مصنوعات فروخت کیں اور ان کے پاس اضافی بلنگ کی لاگت صارفین کو منتقل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
یہ تنازع اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب سامنے آیا کہ حکومت کے خلاف 76 ارب روپے کی سبسڈی کا دعویٰ بھی زیرِ التوا ہے، ایکسپورٹ انڈسٹریز اور فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے ری گیسفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی قیمتوں میں فرق کو حکومت سبسڈی کی شکل میں ادا کرتی ہے، مگر یہ واجبات صارفین سے بلنگ کی صورت میں وصول کیے گئے ہیں۔
اوگرا اور ایس این جی پی ایل، دونوں ایک دوسرے کو قانونی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ایس این جی پی ایل کے ذرائع کے مطابق اوگرا نے دسمبر 2024ء میں اپریل 2015ء سے جون 2022ء تک کیلئے آر ایل این جی کی حتمی قیمتیں جاری کیں، لیکن بعد میں پی ایس او اور پی ایل ایل کی درخواست پر ان نوٹی فکیشنز کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا۔
بعد ازاں اوگرا نے 28 مارچ 2025ء کو دوبارہ نوٹی فکیشن جاری کیے جو 84 ماہ کے عرصے کا احاطہ کرتے ہیں، ایس این جی پی ایل نے گیس سیلز ایگریمنٹ (جی ایس اے) کی شق 3 کے تحت آر ایل این جی صارفین کو قیمتوں میں فرق کا چارج کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اوگرا کو گزشتہ 10 سال پرانی آر ایل این جی قیمتوں پر نظرثانی نہیں کرنی چاہیے تھی، اس کے بجائے انہیں صرف مستقبل کی بنیاد پر پروویژنل اور اصل قیمتوں کے فرق کی ریکوری کرنی چاہیے تھی، جیسا فرٹیلائزر سیکٹر نے کیا۔
ذرائع نے خبردار کیا کہ ماضی کے بلز کی بنیاد پر ریکوری کرنا تقریباً ناممکن ہو سکتا ہے کیونکہ صارفین عدالتی حکم امتناع لے سکتے ہیں، اس سے ریگولیٹڈ گیس سیکٹر پر اعتماد کو نقصان پہنچے گا اور غیر ریگولیٹڈ نجی اداروں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔
اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے ریگولیٹر کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا نے ماہانہ بنیادوں پر آر ایل این جی کی عبوری قیمتیں مقرر کی تھیں، جو اب حتمی کر دی گئی ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ گیس سیلز ایگریمنٹ اور ایس این جی پی ایل کنزیومر سروس مینول کے مطابق عبوری اور حتمی قیمتوں کے درمیان فرق کو ایک ساتھ ایک بل میں وصول کرنے کے بجائے مستقبل کے بلز میں وصول کیا جا سکتا ہے۔