سینیٹ میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 ء کثرت رائے سے منظور ، اپوزیشن کا احتجاج

سینیٹ میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2025 ء کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اپوزیشن نے بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال ناصر کی زیرِ صدارت ہوا، جس میں وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے انسداد دہشتگردی ترمیمی بل 2025 پیش کیا، اپوزیشن ارکان نے بل کو آئین اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا، کامران مرتضی نے بل پر ترامیم پیش کیں اور اسے اسلامی نظریاتی کونسل بھجوانے کی تحریک دی۔

سینیٹر کامران مرتضی کی ترامیم مسترد کر دی گئیں جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور ایوان سے واک آئوٹ کیا۔بل کے مطابق مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کو ملکی سلامتی، دفاع، امن و امان، اغوا برائے تاوان، اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کسی بھی شخص کو 3 ماہ تک حفاظتی حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا جبکہ زیر حراست شخص کے خلاف تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی اور یہ قانون آئندہ 3 سال تک نافذ العمل رہے گا۔

بل کے مطابق سیکشن 11 فور ای کی ذیلی شق ایک میں ترمیم کر دی گئی، ترمیم کے تحت افواج یا سول آرمڈ فورسز کسی بھی شخص کو حفاظتی حراست میں رکھنے کی مجاز ہوں گی۔ ان جرائم میں ملوث شخص کی حراست کی مدت آرٹیکل 10 کے تحت 3 ماہ سے بڑھائی جا سکے گی، زیر حراست شخص کے خلاف تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔متعلقہ تحقیقاتی ٹیم ایس پی رینک کے پولیس افیسر، خفیہ ایجنسیوں، سول ، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں پر مشتمل ہوگی۔

کامران مرتضی نے کہا کہ اگر ہم ترمیم کی مخالفت کررہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دہشتگردوں کے حامی ہیں، اس بل کو کمیٹی میں بھجواتے تو قیامت نہیں آجاتی، یہ ترمیم آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے مخالفت میں کہا کہ یہ بل اسلامی تعلیمات اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، جہاں انصاف نہیں ہوگا وہاں دہشتگردی بڑھے گی، بل کو صرف دہشتگردی کی تعریف تک محدود ہونا چاہئے،جلد بازی میں یہ قانون سازی نہ کی جائے کیونکہ اس کا سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملک دہشتگردی کی آگ میں جل رہا ہے اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس قانون میں ماضی میں بھی کئی ترامیم کی جا چکی ہیں اور سیکشن 4 کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوج طلب کرنے کا اختیار حاصل ہے، سب آرٹیکل ون کے تحت ملزم کو وکیل کرنے کا حق بھی حاصل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس قانون کومزید بہتر بنانے کے لیے ترامیم شامل کی گئی، اگر خیبر پختونخوا میں یہ استعمال ہونا ہے تو ادھر کی صوبائی حکومت اس کی اجازت دے گی، اگر آپ ملک کے لیے خطرہ ہیں تو آپ کو 90 روز کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا جائے گا، اگر آپ کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں تو رہا کر دیا جائے گا، اس قانون کے تحت کسی کو لاپتہ یا غائب نہیں کرنا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ جو بریفنگ وفاقی وزیر قانون نے یہاں دی، میڈیا کو دی جاتی تو بہت سے سوالات ختم ہو جاتے، جب میں شاہ محمود قریشی کو ہتھ کڑی میں دیکھتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے، ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھے، ملک میں دہشت گردی ہو تو کبھی فوج یا کبھی حکومت کو الزام دیا جاتا ہے، اس بل میں ترمیم سے یہ نہیں ہو گا کہ پکڑنے جانے والے کو اپنا جرم بھی پتا نہ ہو، قانون سازی کی راہ میں اس لیے روڑے نہ اٹکائیں کہ یہ حکومت پیش کر رہی ہے، بل میں تعاون کریں، ہمیں اس دہشت گردی کے طوفان کا راستہ قانون سازی کے ذریعے روکنا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بل ہمیں منظور کرنا ہوگا کیونکہ ہم دہشتگردی کے خلاف بڑے محاذ پر لڑ رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ انصاف آئین کے مطابق یقینی بنایا جائے۔جمعیت علما اسلام کے سینیٹر دلاور خان اور سینیٹر احمد خان نے انسداد دہشتگردی ترمیمی بل کی حمایت کی، جس پر وزیرِ قانون نے ان کا شکریہ ادا کیا۔