صحرا کی زندگی

صحرا کی زندگی ایک عجیب مگر حیرت انگیز دنیا ہے۔سکوت میں لپٹی ہوئی مگر اسرار سے بھرپور۔ سورج کی تپش، ریت کے سمندر، پانی کی قلت اور سخت موسمی حالات، بظاہر تو زندگی کی مکمل نفی کرتے ہیں مگر یہی صحرائی ماحول اپنے اندر ایک الگ ہی حیاتِ نو، جفاکشی، صبر و برداشت اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی مثالیں سموئے ہوئے ہے۔
صحرا میں سکوت بولتا ہے۔ یہاں شور نہیں، بس فضا میں گونجتی ہوئی ہوا کی سرسراہٹ ہوتی ہے، ریت کی لہروں کی روانی اور کہیں کہیں کسی جانور کے قدموں کی ہلکی چاپ۔ یہ خاموشی محض بے صوتی نہیں بلکہ غور و فکر، خود شناسی اور کائنات سے ایک ربط کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ وہ شخص جو صحرا میں وقت گزارتا ہے اندر سے مضبوط ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ خود سے بات کرنا سیکھ لیتا ہے۔دن کے وقت سورج کی شدت زمین کو جھلسا دیتی ہے اور رات کو ٹھنڈک ہر چیز کو منجمد کر دیتی ہے۔ یہ تضاد ایک سبق ہے؛ زندگی کبھی حد سے زیادہ گرم، کبھی حد سے زیادہ ٹھنڈی ہوجاتی ہے، مگر جو شخص ان دونوں کو جھیلنا سیکھ لیتا ہے وہی اصل فاتح ہوتا ہے۔ ان موسمی شدتوں میں رہنے والے لوگ زندگی سے لڑنے کے ہنر میں ماہر ہوجاتے ہیں۔
صحرا کی اصل پہچان اُس کے لوگ ہیں۔ بدو، جو صدیوں سے صحراوں میں بسیرا کرتے آ رہے ہیں اُن کی زندگی نہایت سادہ، مگر اصولوں سے جُڑی ہوتی ہے۔ وہ اونٹ پالنے والے، قبیلے میں رہنے والے لوگ، جو قناعت، عزت نفس اور مہمان نوازی کی زندہ مثال ہیں۔ ان کے خیمے، ان کی خوراک، ان کی روایتیں صحرا کی روح کو جلا بخشتی ہیں۔ صحرائی زندگی میں پانی محض ایک چیز نہیں بلکہ زندگی کا مرکزی محور ہے۔ ایک قطرہ بھی یہاں سونا بن جاتا ہے۔ کنویں، چشمے، بارش کا پانی، سب بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ انسان جب صحرائی ماحول میں ہوتا ہے تو اُسے قدرتی وسائل کی قدر کا صحیح ادراک ہوتا ہے۔ یہی شعور ایک سادہ زندگی کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ صحرا میں زندگی نہیں ہوتی۔ یہاں زندگی ہے مگر ایسی جو جینے کا ہنر جانتی ہے۔ کیکٹس، صحرائی جھاڑیاں، خاردار درخت، سب کم پانی میں پنپتے ہیں۔ اسی طرح سانپ، چھپکلی، بچھو اور صحرائی لومڑی جیسے جانور اپنے مخصوص انداز میں زندہ رہتے ہیں۔ ان سب کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کم وسائل میں بھی بقا ممکن ہے، بشرطیکہ انسان ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
آج کے دور میں کئی ممالک نے صحرا کو ترقی کا مرکز بنا دیا ہے۔ دبئی، ریاض، دوحہ جیسے شہروں کی ترقی اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اگر ارادہ کرے تو صحرا کی بے آب و گیاہ سرزمین پر بھی روشنیوں کے شہر بسائے جاسکتے ہیں۔ سولر انرجی، صحرائی زراعت اور ماڈرن تعمیرات یہ سب صحرا کو ایک نئی پہچان دے رہے ہیں۔ صحرا محض ایک جغرافیائی جگہ نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے۔ صوفیوں اور فلسفیوں نے تنہائی میں اکثر صحراوں ہی میں سچائی کو تلاش کیا۔ مکہ کی سرزمین جو خود ایک صحرا ہے، سے انسانیت کی عظیم رہنمائی شروع ہوئی۔ صحرا انسان کو خاکساری، عاجزی اور خالص پن سکھاتا ہے۔ صحرا کی زندگی سخت ضرور ہے، مگر سادہ، گہری اور سُکھ دینے والی بھی۔ یہ ہمیں خود پر انحصار، قناعت اور فطرت سے ہم آہنگی کا درس دیتی ہے۔ صحرائی زندگی کو صرف مشکلات کا مجموعہ سمجھنا نادانی ہے۔ یہ دراصل ایک مکمل فلسفہ حیات ہے جو انسان کو اس کی اصل سے جوڑتا ہے۔ (ڈاکٹر عبدالرحیم درویش)