بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنوں اور حامیوں نے دارالحکومت ڈھاکا میں ایک بڑے جلسے میں شرکت کی اور آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
یہ جلسہ ایسے وقت میں ہوا جب جماعت اسلامی کو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی میدان میں دوبارہ سرگرم ہونے کا موقع ملا ہے۔ شیخ حسینہ کے دور میں جماعت اسلامی پر سخت پابندیاں عائد رہیں اور اس کی سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی تھی۔
تاہم گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے جماعت کی رجسٹریشن بحال کر دی، جس کے بعد اسے 2026 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا قانونی حق حاصل ہو گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے کارکن سات نکاتی مطالبات کے ساتھ میدان میں نکلے ہیں جن میں تناسبی نمائندگی کا نظام شامل ہے تاکہ صرف اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ہی تمام اختیارات نہ لے جائے۔ ایک کارکن نے کہا: “ہم نے گزشتہ 15 سال بہت مشکلات میں گزارے، جیلیں کاٹیں، سیاسی حقوق چھین لیے گئے۔ اب ہم انصاف چاہتے ہیں۔”
مظاہرے میں شریک افراد پارٹی کے نشان ترازو کے بیج، ہیڈ بینڈ اور ٹی شرٹس پہن کر شریک ہوئے، جنہوں نے جلسے کو ایک منظم سیاسی طاقت کی شکل دی۔
شمالی بنگلا دیش کے علاقے بوگرا سے آئے 58 سالہ شفیق الاسلام نے کہا: “جماعت اسلامی اسلامی ملک کے قیام کا وعدہ کرتی ہے، اسی لیے میں یہاں آیا ہوں۔ یہ میرا بطور مسلمان فرض ہے۔”
ایک دوسرے مظاہرین نے کہا: “جماعت پر بلاوجہ الزامات لگائے جاتے ہیں، اس نے ہمیشہ قومی وحدت کی حمایت کی ہے۔”