اسرائیل: ہر میزائل کو روکنے کی لاگت کتنی پڑتی ہے؟

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
اسرائیلی اخبار روزنامہ ہارٹز نے اندازہ لگایا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے جانے والی ہر میزائل لہر (یعنی ہر دفعہ میں فائر کیے گئے میزائلوں کے گروپ) کو روکنے کی لاگت تقریباً ایک ارب شیکل (یعنی 287 ملین ڈالر) تک پہنچ جاتی ہے۔
اسرائیل کے پاس مختلف میزائل دفاعی نظام موجود ہیں جن میں آئرن ڈوم (آہنی گنبد) سہم (Arrow)، David’s Sling (حضرت داود علیہ السلام کی غلیل) اور امریکی نظام THAAD شامل ہیں، لیکن بنیادی انحصار ایرو (عبرانی میں حِیتس) پر ہے جو اپنے دو ورڑنز ایرو 2 اوایرو 3 کے ساتھ کام کررہا ہے۔اسرائیلی اقتصادی اخبار گلوبس نے 2023ء کے آخر میں رپورٹ کیا تھا کہ سہِم 2 زمین کے فضا میں موجود حصے میں میزائلوں کو روکتا ہے، جبکہ سہِم 3 فضا کے بیرونی حصے میں (یعنی خلا کے قریب) اعتراض کرتا ہے۔ اخبار کے مطابق: ’دونوں نظام بیلسٹک میزائلوں یعنی دور مار خطرات کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور دونوں کی کارروائی کی بلندی میں فرق ہے۔ اصل ہدف یہ ہے کہ میزائل کو اسرائیل کی حدود سے جتنا دور ممکن ہو وہیں تباہ کیا جائے۔ خلا کے قریب تباہ کرنے سے یہ خطرہ اسرائیل کی حدود سے کافی فاصلے پر ختم کیا جاسکتا ہے۔‘ ہر بار ایران کی طرف سے داغے گئے درجنوں میزائلوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کو سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں اور یہ جنگ اقتصادی اعتبار سے بھی اس کے لیے نہایت مہنگی ثابت ہورہی ہے۔
اخبار نے مزید لکھا کہ ان دفاعی نظاموں کی لاگت فضائی دفاع کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ آئرن ڈوم سے ایک میزائل کو روکنے کی لاگت تقریباً 30 ہزار ڈالر ہے جبکہ مقلاع داوود (David’s Sling) سے روکنے کی قیمت تقریباً 7 لاکھ ڈالر تک پہنچتی ہے۔ اس کے برعکس سہِم 2 (Arrow 2) میزائل کی لاگت تقریباً 15 لاکھ ڈالر ہے اور سہِم 3 (Arrow 3) کی قیمت تقریباً 20 لاکھ ڈالر فی میزائل ہے۔ یعنی ایران کے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کو ہر بار کروڑوں ڈالر صرف کرنا پڑ رہے ہیں، جو کہ طویل جنگ کی صورت میں مالی طور پر بھی اسرائیل کو شدید دباو میں لا سکتا ہے۔
اسرائیلی سرکاری پریس آفس نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعے سے اب تک ایران کی جانب سے 500 سے زائد بیلسٹک میزائل اور سینکڑوں ڈرون طیارے داغے جا چکے ہیں، جن میں سے تقریباً 45 میزائل اسرائیلی حدود میں گرے تاہم ان کے مقامات کی تفصیل نہیں دی گئی۔جب اسرائیلی ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) کے سی ای او بوعز لیوی سے پوچھا گیا کہ آیا اسرائیلی فضائی دفاعی نظام اپنی حدِ برداشت کے قریب پہنچ چکے ہیں تو اس کا کہنا تھا: دنیا میں کوئی بھی ملک ایسے پیمانے کے بیلسٹک میزائل حملوں کا سامنا نہیں کر چکا جو ہمیں برداشت کرنے پڑے ہیں۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع کے اندازے کے مطابق: سہِم 3 (Arrow 3) سسٹم کا کامیاب دفاع کرنے کا تناسب 90 فیصد ہے جبکہ امریکی THAAD سسٹم کی کامیابی کی شرح صرف 40 فیصد ہے۔
اس انکشاف نے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے اس امریکی سسٹم کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ اسرائیل گزشتہ جمعے سے ایران کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات، فوجی و سول اہداف کو نشانہ بنایا اور اعلیٰ فوجی قیادت جن میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر، ایرانی چیف آف اسٹاف اور نامور جوہری سائنسدان شامل ہیں کو قتل کیا۔ پھر آخری وار امریکا نے خود کیا اور ایران کی تین ایٹمی تنصیبات کو براہ راست نشانہ بنالیا۔ جواباً ایران کی جانب میزائل حملوں کی ایک بھرپور مہم کے ذریعے اسرائیل کے مختلف شہروں میں غیرمعمولی تباہی کی گئی جس کا سلسلہ کل کی جنگ بندی کے بعد اب رُک چکا ہے۔
اسرائیل کے دفاعی نظام کو درپیش چیلنجز کو اگر موجودہ مالی مشکلات کے تناظر میں دیکھا جائے تو تصویر مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیل ایک دوہرے دباو میں ہے۔ ایک طرف دفاعی نظام پر حد سے زیادہ انحصار اور دباو اور دوسری طرف معاشی بوجھ اور بجٹ بحران۔ ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور ڈرونز کے بیک وقت حملے نے اسرائیلی دفاعی نظام کو سخت آزمائش میں ڈال دیا۔ آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ اور ایرو 3 جیسے نظام جدید ضرور ہیں، لیکن ان کی انٹرسیپشن کی رفتار اور فی سیکنڈ گنجائش محدود ہے۔ اگر دشمن ایک ہی وقت میں درجنوں میزائل مختلف سمتوں سے داغے تو دفاعی نظام اوورلوڈ ہوکر ناکام ہوجاتا ہے، جیسا کہ تل ابیب، حیفا اور نس تسیونہ سمیت مختلف شہروں پر روزانہ برستے ایرانی میزائل اس بات ثابت کررہے ہیں۔ اگر ایک دن میں 100 انٹرسیپٹر فائر کیے جائیں تو صرف یومیہ لاگت 50 سے 100 ملین ڈالر ہوسکتی ہے۔ مسلسل حملوں کی صورت میں یہ اخراجات ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر جنگ طوالت اختیار کرتی ہے تو انٹرسیپٹرز کا اسٹاک ختم ہو سکتا ہے، جس کے بعد امریکا کی طرف سے فوری رسد کی ضرورت ہوگی جو سیاسی یا لاجسٹک وجوہات سے ہر وقت ممکن نہیں۔ پھر ہر دفاعی بیٹری مخصوص علاقے تک ہی محدود ہوتی ہے۔ اگر شمال (لبنان)، مشرق (ایران، شام) اور جنوب (غزہ) سے ایک ساتھ حملے ہوں تو کئی علاقے دفاعی تحفظ سے محروم ہو سکتے ہیں۔7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ جنگ نے اسرائیل کی معیشت کو شدید دھچکا دیا۔ سیاحت، صنعت، تجارت متاثر ہوئی، جبکہ دفاعی اخراجات میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس لیے اسرائیل کے لیے اپنے خزانے سے فوراً یہ بیٹریاں خریدنا بھی ممکن نہیں ہے۔ 2024ء کے دوران اسرائیلی فوجی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود، موجودہ کشیدگی کے باعث نئے انٹرسیپٹرز، مرمت، ایندھن اور موبلائزیشن کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں جبکہ اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام، عدالتی اصلاحات پر احتجاج اور اب جنگی حالات نے سرمایہ کاری کا ماحول متاثر بلکہ مکمل طور پر تباہ کیا ہے۔
ایران کے میزائل اور ڈرون حملے نے ثابت کردیا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام بیک وقت حملوں کی صورت میں ناکام ہے۔ ان نظاموں کو چلانا مالی اعتبار سے حد درجہ مہنگا ہے۔ موجودہ حالات میں اسرائیل کو بیرونی مالی امداد (خصوصاً امریکا سے) کی شدید ضرورت ہے۔ اسرائیل کا جدید ترین دفاعی نظام بھی اس وقت بے بس ہوجاتا ہے جب دشمن کم لاگت والے، بیک وقت اور مختلف نوعیت کے حملے کرے اور جب اس دفاع پر چلنے والے میزائل لاکھوں ڈالر فی انٹرسیپٹ کے حساب سے خرچ ہوں، تو یہ صرف ایک فوجی نہیں بلکہ معاشی جنگ بھی بن جاتی ہے، جسے طویل عرصے تک جاری رکھنا کسی بھی ریاست کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔