غزہ،اسرائیلی حملے،202فلسطینی شہید،مجاہدین کا جواب،کئی صہیونی ہلاک وزخمی

غزہ/ برلن/لندن/نیویارک:غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے جاری ہیں، اسرائیلی بمباری سے مزید 202 فلسطینی شہید ہوگئے۔20 ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی حملوں میں شہداء کی تعداد 56 ہزار تک پہنچ گئی۔

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں 202 لاشیں غزہ کے ہسپتالوں میں پہنچائی گئی ہیں، اسی دوران اسرائیلی حملوں میں 1 ہزار 37 افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔7 اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 55 ہزار 908 افراد شہید اور 1 لاکھ 31 ہزار 138 زخمی ہوچکے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں میں 84 فلسطینی شہید ہوگئے، غزہ سٹی اور شمالی علاقوں میں بمباری سے 60 افراد شہید ہوئے، خان یونس میں خوراک کے منتظر 16 افراد کو نشانہ بنایا گیا، امداد کے منتظر افراد پر ٹینکوں، طیاروں کے ذریعے حملہ کیا گیا۔

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل کے مطابق، جنوبی غزہ میں پانچ افراد کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ امدادی سامان کے انتظار میں کھڑے تھے جبکہ مزید 26 فلسطینیوں کو وسطی علاقے نیٹساریم کاریڈور کے قریب نشانہ بنایا گیا، یہ علاقہ اسرائیلی فوج کے زیرِ کنٹرول ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد خوراک کی تلاش میں پہنچتے ہیں۔

محمود باسل کے مطابق دیر البلاح شہر اور اس کے نواح میں بھی دو مختلف حملوں میں 14 افراد جان سے گئے جب کہ غزہ سٹی میں کی گئی تین فضائی کارروائیوں میں مزید 13 شہری شہید ہوئے۔

ان میں سے ایک حملہ فون چارجنگ اسٹیشن پر ہوا جس میں تین افراد جاں بحق ہوئے۔ادھرحماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے مشرقی علاقے الزنہ میں قابض اسرائیلی فوج کے قافلے پر کیے گئے ایک بھرپور اور مؤثر حملے کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں ایک اسرائیلی افسر اور ایک فوجی کو ہلاک کردیا گیا۔

منظرِ عام پر آنے والی ویڈیو میں القسام بریگیڈز کے مجاہدین کو قابض اسرائیلی فوج کے سپلائی لائن پر ایک پیچیدہ اور منصوبہ بند گھات لگا کر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کارروائی میں دشمن کے قافلے کی نقل و حرکت، بم نصب کرنے کے مقامات اور حملے کی مکمل تیاری شامل تھی جس کے بعد حملے کا عملی مرحلہ نہایت دلیری سے انجام دیا گیا۔

القسام کے شیر دل مجاہدوں نے انتہائی نزدیک سے قابض فوج پر وار کیے اور دشمن کے دل میں گھس کر ان پر کاری ضرب لگائی۔

ویڈیو کے مطابق القسام کے مجاہدین نے دشمن کے قافلے کے راستے میں شواظ طرز کے شدید دھماکا خیز بم نصب کیے تھے جیسے ہی قابض اسرائیلی فوج کی بکتربند گاڑیاں وہاں سے گزریں، مجاہدین نے دو گاڑیوں کو دھماکوں سے نشانہ بنایا جب کہ تیسری گاڑی پر ”یاسین 105” میزائل داغا گیا۔

اس کے بعد وہ دشمن کی چوتھی بکتربند گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اس میں سوار فوجیوں سے آمنے سامنے لڑے، یہاں تک کہ دشمن کی گاڑی گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے فرار ہو گئی۔اس بے مثال کارروائی کے نتیجے میں قابض اسرائیل کا ایک افسر اور ایک سپاہی ہلاک ہو گیا۔

دوسری جانب قابض اسرائیل کے جاری وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں شمالی غزہ ایک بار پھر دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ فلسطینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ غزہ شہر اور شمالی غزہ کی گورنریوں میں انٹرنیٹ اور زمینی ٹیلی فون سروسز مکمل طور پر معطل ہو چکی ہیں۔

یہ خلل قابض اسرائیل کی جانب سے ان بنیادی مواصلاتی لائنوں کو مسلسل نشانہ بنانے کے باعث پیش آیا جن پر پورے علاقے کا رابطہ انحصار کرتا ہے۔کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ وہ پہلے ہی خبردار کر چکی تھی کہ اگر یہ حملے نہ رکے تو شمالی غزہ میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر مفلوج ہو جائے گا اور اب یہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔

فلسطینی انجینئرنگ ٹیمیں مسلسل 48 گھنٹوں سے شدید خطرات کے باوجود رات دن کام کر رہی ہیں تاکہ کسی طور نظام بحال کیا جا سکے مگر قابض اسرائیل کی جانب سے ان تنصیبات پر جاری حملے ان کوششوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

دریں اثناء ہیومن رائٹس واچ اور دنیا بھر کی 110 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں اور لیبر یونینز نے ایک مشترکہ بیان میں یورپی یونین سے پْرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے ساتھ تجارتی شراکت داری کے معاہدے کو فوری طور پر معطل کرے۔

یہ مطالبہ اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ قابض اسرائیلی افواج غزہ میں مسلسل جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کر رہی ہیں جب کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کو کھلے عام نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

بیان میں واضح کیا گیا کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ رواں ماہ 23 جون کو اس تجارتی شراکت داری پر غور کریں گے جس میں یہ جانچا جائے گا کہ آیا قابض اسرائیل انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام سے متعلق معاہدے کی شق نمبر دو پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔

یہ کارروائی ڈچ حکومت کی طرف سے پیش کردہ ایک تجویز پر ہو رہی ہے جسے 27 میں سے 17 یورپی وزرائے خارجہ کی حمایت حاصل ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے یورپی دفتر کے قائم مقام ڈائریکٹر کلاڈیو فرانکافیلا نے خبردار کیا کہ یورپی یونین کی تمام رکن ریاستیں نسل کشی کی روک تھام سے متعلق معاہدے کی فریق ہیں اور ان پر لازم ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے جرائم روکنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع اختیار کریں۔

انہوں نے کہا کہ جو حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں وہ درحقیقت اس درندگی میں شریک تصور کی جائیں گی۔ فرانکافیلا نے زور دیا کہ تجارتی شراکت داری کا خاتمہ کسی تاخیر کے بغیر ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یورپی یونین انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے احترام کے اپنے دعوئوں میں سنجیدہ ہے تو اسے قابض اسرائیل جیسے مجرم ریاست سے تجارتی تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں۔ بصورت دیگر یہ رویہ اسرائیلی قیادت کو مزید بے خوف بنائے گا۔

الخلیل کے محکمہ اوقاف نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے مسلسل آٹھویں دن بھی مسجد ابراہیمی میں نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے اس دوران اسرائیلی فوج نے گزشتہ جمعہ سے شروع ہونے والے ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد سے پورے مغربی کنارے پر محاصرہ مزید سخت کر دیا ہے۔

محکمہ اوقاف الخلیل کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قابض اسرائیل کی فوج مسجد ابراہیمی کو مسلسل آٹھویں دن بند رکھے ہوئے ہے اور نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جا رہی۔مسجد ابراہیمی قدیم الخلیل کے علاقے میں واقع ہے جو مکمل طور پر اسرائیلی تسلط میں ہے۔

اس علاقے میں تقریباً 400 یہودی آباد ہیں جن کی حفاظت کے لیے 1500 اسرائیلی فوجی تعینات ہیں۔

ادھرفلسطینی پناہ گزینوں کی غم زدہ تاریخ کے سائے میں اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین ”انروا” نے ایک بار پھر مظلوم فلسطینیوں سے عہد دہراتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک انہیں ایک منصفانہ حل نہیں مل جاتا تب تک ان کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

یہ بیان اقوامِ متحدہ کی اس ایجنسی نے ایک پیغام میں دیا جو اس نے سماجی پلیٹ فارم ”ایکس” پر عالمی یومِ پناہ گزینان کے موقع پر جاری کیا۔ یہ دن ہر سال 20 جون کو دنیا بھر میں ان لاکھوں افراد سے اظہارِ ہمدردی کے لیے منایا جاتا ہے جو زبردستی اپنے گھروں سے نکالے جا چکے ہیں۔

اونروا کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں فلسطینی پناہ گزینوں کو انتہائی سخت حالات کا سامنا ہے، خاص طور پر جب سے وہ گزشتہ 77 برس سے مسلسل جبری نقل مکانی کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔

ایجنسی نے وضاحت کی کہ 1948ء کی ”نکبہ” یعنی قیامت خیز تباہی کے وقت سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گاؤں اور شہروں سے نکالے گئے تھے آج 77 برس گزرنے کے باوجود یہ مظلوم قوم بدستور اپنی سرزمین سے بے دخل کی جا رہی ہے۔

انروا کے مطابق قابض اسرائیل کی طرف سے جاری جارحیت اور نسل کشی کے نتیجے میں غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک، تقریباً 19 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا گیاہے۔