جہا د کشمیر اور چترال

(تحریر: ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی)

جہاد کشمیر پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ گلگت بلتستان کی ڈو گرہ راج سے آزادی اس باب کا اہم حصہ تصور ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان سمیت موجودہ آزاد کشمیر کی ڈوگرہ راج سے آزادی کے جہاد میں قبائلی مجاہدین کا ذکر ملتا ہے۔ اس جہاد میں قبائلیوں کے ساتھ چترال کے مجا ہدین نے بھی ناقابل فراموش کا رنا مے انجا م دیے تھے اور گلگت بلتستان کو آزاد کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

یہ بات تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ قیا م پاکستان کے وقت مہتر چترال مظفر الملک نے مہا راجہ کشمیر کو لکھا تھا کہ مسلمان رعایا کے جذ بات کا احترام کرو اور اپنی ریا ست کا الحا ق پاکستان کے ساتھ کردو، مگر مہا را جہ کشمیر نے اس کا مثبت جوا ب نہیں دیا۔ اکتو بر 1947ءمیں جب مہا را جہ نے بھارت کے ساتھ الحا ق کا اعلان کیا تو کشمیر اور گلگت بلتستان میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ سر حدوں پر کشید گی کا آغا ز ہوا ۔وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے مہتر چترال کو خط لکھ کر کشمیر کی طرف سے آنے والے خطرے کا حوالہ دے کر تعاون کی اپیل کی تو مہتر چترال نے ریاست چترال کے عما ئدین، اکابرین اور علمائے دین سے مشاورت کے بعد جہا د کا اعلا ن کر دیا۔
چنا نچہ اگلے چند ما ہ جہا د کشمیر کی تیاری میں گزر ے اور 1200مجا ہدین کا قافلہ تیار ہوا۔ پہلے دروش سے مجا ہدین کے دو دستے شہزادہ بر ہان الدین اور شہزادہ غلا م محی الدین کی قیا دت میں چکدرہ اور نوشہرہ کے راستے کشمیر جا نے والے مجا ہدین کے ساتھ مل گئے۔ ان مجا ہدین نے اپریل سے اگست تک پھلوا ئی، ترا گبل اور گریز کے محا ذوں پر جہا د کا علم بلند کیا۔ چترال کے مجا ہدین کا تیسرا دستہ شہزادہ کرنل مطا ع الملک کی قیا دت میں شندور گوپس کے راستے اگست 1948ءکے پہلے ہفتے اسکر دو پہنچا اور میجر احسان علی سے محا ذ کا چارج سنبھا لا۔ یہاں پر مجا ہدین کو زبردست مزا حمت کا سامنا تھا۔ ڈو گرہ فوج کھر فوچو (Khar Pachu) کے قلعے کی بلند ی سے تینوں اطراف میں مجا ہدین اور مقا می آبادی پر گو لے بر سا رہی تھی۔ اوپر سے مہا را جہ کشمیر کی فو ج جہا زوں کے ذریعے کمک بھی پہنچا رہی تھی اور بمباری بھی کر رہی تھی۔ اس صورت حا ل میں چترال کے مجا ہدین نے جوحکمت عملی اختیار کی ا±س کا ذکر اپنی کتاب ”شمشیر سے زنجیرتک“ میں جہا د آزادی کے سرِ خیل کرنل مر زا حسن خان نے ان الفاظ میں کیا ہے:
”مطاع الملک نے حسب عادت و ضرورت اسکر دو کا چارج سنبھا لتے ہی قلعے پر گو لہ باری شروع کر دی، اونچے ٹیلوں سے اندر فائر گر ا کر تبا ہی مچا دی اور محصو رین قلعہ کا آب و دانہ بند کر دیا۔ پہلی بار معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی جنگجو سپا ہی دشمن سے منا سب انداز میں نپٹ رہا ہے، پھر گو لہ باری سے قلعے کی دیوار وں میں شگاف پڑ نے شروع ہو گئے جس سے دشمن کے حو صلوں میں بھی شگاف پڑ گئے، بھا رتی فضا ئیہ اوپر سے اپنی فوج کے لیے جو راشن گرارہی تھی، وہ چترالی مجا ہدین کے قبضے میں آرہے تھے۔ با لآ خر کرنل ایس کے تھا پا نے مجبور ہو کر کرنل مطا ع الملک کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔“
جہا د کشمیر اور معرکہ آزادی گلگت بلتستان میں قلعہ کھر فو چو کی فتح کو فیصلہ کن جنگ کی حیثیت دی جا تی ہے مگریہ آسان جنگ نہیں تھی ،چترال کے مجا ہدین پا پیا دہ سینکڑوں کلو میٹر کا راستہ طے کر کے گلگت کے راستے اسکر دو پہنچے تھے، آج گاڑیوں میں یہ فاصلہ 28 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اسلحہ بھی وافر مقدار میں دستیاب نہیں تھا۔ رسد اور راشن کا معقول انتظام بھی نہیں تھا۔ مجا ہدین کو گھروں سے نکلتے وقت سب کچھ معلوم تھا، موڑ کہو کی کمپنی کے کمانڈر لیفٹیننٹ سردار امان شاہ نے اپنے دستے کو ہدایت کی تھی کہ شہا دت کی نیت سے نکلو، ان کی تقلید میں چترال باڈی گارڈ کے تمام کما نڈروں نے یہی نصیحت کی اور ہر مجا ہد گھر سے نکلتے وقت شہا دت کی نیت سے نکلا، گلگت کے گریژن کمانڈر کرنل پا شا نے مشکل پہاڑی راستوں سے پو لیس آفیسروزیر غلا م رسول کی سر براہی میں 300مجا ہدین کے ذریعے دو عدد 7.3ایم ایم تو پ کھول کر خچروں اور گدھوں پر لا د کر اسکر دو پہنچا یا، جن کو کرنل مطاع الملک نے جو ڑ کر دو اطراف میں بلند ٹیلوں پر نصب کر کے کیمو فلا ج کیا تو دشمن کی دور بینوں کو نظر آنے سے محفوظ ہوگئے۔ اپنی تو پوں کی مزید حفا ظت کے لیے کھلی جگہوں میں لکڑی کی بنی ہوئی کئی مصنوعی تو پیں نصب کیں جو دشمن کے حملوں کا نشا نہ بنیں۔
قلعے کے دائیں بائیں گھا ٹیوں میں دن رات نگرا نی کےلئے جری جوانوں کے دستے تعینات کیے گئے جو بھا گنے والوں کو گو لی مار تے تھے اور آنے والوں کو گرفتار کر تے تھے۔ قلعے کے اوپر پہاڑی پر مضبوط مو رچے بنا کر پہریدار بٹھا ئے گئے۔ نیچے دریا کی طرف آنے کا راستہ بند کیا گیا ۔محصو رین پر زند گی تنگ کر دی گئی۔ بھا رت کے ایک فو جی تجزیہ کار کرنل تیج کمار ٹکو کی کتاب ”فال آف گلگت اینڈ سیج اینڈ فال آف اسکر دو“ کے نا م سے 2013ءمیں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے کرنل مطاع الملک کی جنگی حکمت عملی کو مثا لی قرار دیتے ہوئے ان کے فو جی پس منظر اور دوسری جنگ عظیم میں ان کے کردار کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسی طرح مو لانا حق نواز نے اپنی کتاب ”جنگ آزادی گلگت بلتستان کشمیر (حقائق و انکشافات)“ میں فاتح ا سکر دو کرنل مطاع الملک کی بہا دری اور چترال کے مجا ہدین کی خد مات کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ کرنل مرزا حسن خان اپنی یا د داشتوں میں لکھتا ہے کہ فاتح اسکر دو مطا ع الملک دشمن کے ساتھ صلح کل کے حا می نہیں تھے۔ وہ پہلی فرصت میں دشمن کے ساتھ دو دو ہا تھ کر نے کے قائل تھے۔
انہوں نے ایسا ہی کر کے دکھا یا، کھر فوچو کا قلعہ فتح ہونے کے بعد قیدیوں میں دو افسروں کی بڑی اہمیت تھی، کرنل تھا پا قلعے میں کما نڈ نگ افیسر تھے،دوسرے کیپٹن گنگا سنگھ تھے، جن کا شمار ان آفیسرز میں ہوتا تھا جن پر جنگی جرائم کے الزا مات تھے، فتح اسکر دو کے بعد گنگا سنگھ کو سزائے مو ت دی گئی، جبکہ کرنل تھاپاسمیت دیگر افسران کو بذریعہ جہازراولپنڈی پہنچا کر حکام کے حوالے کیا گیا، تاہم گنگا سنگھ کو سزائے موت دینے پر کرنل مطاع الملک پر جنگی قیدی کو مارنے کا مقدمہ چلا کر انہیں پشاور جیل میں قیدکی سزادی گئی۔ اسکردو کے محا ذ پر چترال کے 9جانبا زوں نے شہا دت پائی۔ ان میں بڑا نگ خان دنین، نواب خان تور کھو، اکبر خان تیریچ، جندی خان کشم، سراج الدین کشم، بائی خان سہرت، داود پنا ہ سور لا سپور اور مر زا نا در تورکھو شامل ہیں۔ غا زیوں کی واپسی کے بعد ہز ہائی نس مظفر الملک نے شہدا کے لواحقین کی حو صلہ افزائی کے لئے ان سے فر داً فرداً ملا قات کی، ان کو انعا مات، خلعت اور وظائف سے نوازا، غا زیوں میں سے جن بہا دروں نے محا ذ جنگ کے اندر کمپنی کما نڈر کے فرائض خوش اسلوبی سے انجا م دیے ان کو اگلے عہدوں پر ترقی دی گئی، خطابات اور انعامات سے نوا زا گیا۔ چترال باڈی گارڈ کے کوارٹر ما سٹر لیفٹیننٹ غلا م مر تضیٰ نے مندر جہ ذیل غا زیوں کے انعامات اور القابات کا ذکر کیا ہے۔ جملدار عبدالجبار، جملدار جنگی لاٹ، جملدار دورانی خان، جملدار مراد، جملدار شیر ولی خان، صوبیدار سیف علی خان، صو بیدار انور بیگ، صو بیدار بہرام بیگ، صو بیدار محمد گل، صو بیدار محبت خان، صو بیدار زیربلی خان، صو بیدار لعل مردان، صوبیدار محراب حسین شاہ، لیفٹیننٹ شیر عرب، لیفٹیننٹ سردار امان شاہ، لیفٹیننٹ ولا یت خان، لیفٹیننٹ شاہ عبدالحسن، لیفٹیننٹ عبد الجہان خان، لیفٹیننٹ عطائے کریم، لیفٹیننٹ علی دیار خان، لیفٹیننٹ ابولیّث اور لیفٹیننٹ خا دم دستگیر۔ اسی طرح لیفٹیننٹ عبدالروف کو کیپٹن کا عہدہ دیا گیا۔

مولا نا حق نواز نے اپنی کتاب میں اسکر دو کے قلعہ کھر فو چو پر پا کستانی پر چم لہرا نے کا ذکر کر تے ہوئے لکھا ہے کہ کرنل مطاع الملک کی کا میا ب حکمت عملی اور بہا دری نے 10مہینوں سے جا ری لڑ ائی کو صر ف 10دنوں کے اندر اپنی فتح اور کا میا بی کے ساتھ انجا م تک پہنچا یا…….. توپوں سے روزانہ 25گولے فائر ہونے لگے تو تین دنوں کے اندر دشمن نے گھٹنے ٹیک دیے، 13اگست کی رات 8بجے کرنل تھاپا نے صبح تک مہلت ما نگی، 14اگست 1948ءکی صبح کو ڈو گر ہ فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور اسکر دو فتح ہوا، جب بھی اسکر دو کے محاذ جنگ کا ذکر آتا ہے، کرنل مطاع الملک اور چترال کا نا م ضرور آتا ہے۔