دروز ریاست کے قیام اور شام کی تقسیم کا گھناﺅنا صہیونی منصوبہ

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
جمعے کی رات کو قابض اسرائیلی طیاروں نے شام کے دارالحکومت دمشق میں صدارتی محل کے اطراف کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ شامی حکومت کی جانب سے جنوبی شام میں اپنی فوج تعینات کرنے اور ان علاقوں میں کارروائیاں کرنے کے ردعمل میں کیا گیا ہے جہاں دروز برادری آباد ہے اور جو اسرائیلی سرپرستی میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ شام کی طرف سے دروز علاقوں میں کارروائیاں اسرائیل کے لیے ایک ’ریڈلائن‘ ہیں اور اسرائیل ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو اس کے زیراثر یا حلیف سمجھے جاتے ہیں، خاص طور پر جب یہ کارروائیاں اس کی سیکورٹی کے مفادات کے خلاف ہوں۔ یہ واقعہ شامی حکومت، دروز اقلیت اور اسرائیلی مداخلت کے مابین جاری کشیدگی کو ایک نئے خطرناک مرحلے میں داخل کرتا ہے، جو نہ صرف داخلی خانہ جنگی کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے بلکہ علاقائی تصادم کے امکانات کو بھی بڑھا سکتا ہے۔
شام میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے وہاں اسرائیل کے حملے جاری ہیں۔ دوروز قبل انتہاپسند وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ نے غزہ خونزیزی کے اہداف بتاتے ہوئے شام میں آزاد و خودمختار دروز ریاست کو ایک اہم نکتہ قرار دیا تھا۔ خود کو موحدون کہنے والے دروز پہلے مسلمان کہلاتے تھے، لیکن بعد میں عقائد میں تبدیلی کی بنا پر انہوں نے اپنی شناخت الگ کرلی۔ نیا جنم یا تجسیمِ نو (Reincarnation) دروز عقیدے کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے زندگی بعد موت کا تصور ان کے یہاں کچھ مبہم سا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں مسلمانوں سے مماثلت کے باوجود قادیانیوں کی طرح انہیں خود کو مسلمان کہنے پر اصرار نہیں اور وہ خود کو فخر سے ایک علیحدہ مذہبی اکائی قرار دیتے ہیں، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دنیا میں دروزوں کی تعداد دس لاکھ سے کچھ زائد ہے، جن میں سے سوا 6 لاکھ شام میں رہتے ہیں۔ اسرائیل کے مقبوضہ شامی علاقے گولان میں آباد دروزوں کا تخمینہ ایک لاکھ اور لبنان میں ڈھائی لاکھ ہے۔ دروز لبنان و شام میں صدیوں سے آباد ہیں اور عرب زبان و تہذیب کی وجہ سے دروز اور مسلمانوں میں خاصی ہم آہنگی اور رواداری پائی جاتی ہے۔ لیکن اب اسرائیل دروزوں کو نئی شامی حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دنوں خونریز فسادات بھی ہوئے۔ اب امریکا بہادر نے بھی شامی دروزوں سے بدسلوکی پر تشویش کا اظہار شروع کردیا ہے۔ جس منظم انداز میں دروز حقوق کی تحریک چل رہی ہے اُس سے شام میں ایک نئی خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسرائیلی حملے اور شام میں دروز برادری کے اِردگرد پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی نہ صرف شام کے اندرونی حالات بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور سیاسی توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ آئیے اس کے چند اہم پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں:
دروز برادری کی جغرافیائی و سیاسی حیثیت
دروز برادری مشرق وسطیٰ کی ایک اقلیتی مذہبی جماعت ہے جو لبنان، شام، اسرائیل اور اُردن میں پائی جاتی ہے۔ شام میں ان کی بڑی تعداد السویدا، جرمانا اور صحنایا جیسے علاقوں میں ہے۔ دروز عام طور پر غیرجانب دار پالیسی اپناتے ہیں، لیکن شام کی خانہ جنگی کے دوران کچھ دھڑے حکومت کے خلاف مزاحمتی کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل میں موجود دروزوں کو صہیونی ریاست نے بعض اوقات بطور اتحادی پیش کیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو شامی حکومت کے مخالف ہیں۔ دروز برادری کے دفاع کے نام پر اسرائیلی حملہ ایک نیا رخ ہے۔ اس سے اسرائیل دروز عوام کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ’ہم تمہارے محافظ ہیں‘ تاکہ انہیں شامی حکومت سے دور رکھا جاسکے۔ یہ اقدام دروز علاقوں میں مزید کشیدگی اور شامی حکومت کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اس سے لبنان اور اُردن کی سرحدوں پر بھی سیکورٹی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ علاقے بھی دروز آبادی اور شامی اثرات سے جڑے ہوئے ہیں۔ نیز دروز علاقوں میں مسلح بغاوت یا خودمختاری کے مطالبات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی حملے شامی حکومت کی خودمختاری کو چیلنج کرتے ہیں، جس سے مزید بیرونی مداخلتوں کا جواز پیدا ہوتا ہے۔
حالیہ کشیدگی کا پس منظر
شامی دارالحکومت دمشق کے مشرقی علاقے جرمانا میں 29 اپریل کی رات سیکورٹی فورسز اور ایک نامعلوم مسلح گروہ کے درمیان شدید مسلح جھڑپیں ہوئیں، جنہوں نے مبینہ طور پر شہر میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان جھڑپوں میں سیکورٹی فورسز کے دو اہلکار اور 6 شہری جاں بحق جبکہ 12 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ بعد میں جانی نقصانات میں اضافہ ہوگیا۔ یہ جھڑپیں اس وقت بھڑک اٹھیں جب ایک توہین آمیز آڈیو ریکارڈنگ وائرل ہوئی، جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی تھی۔ یہ ریکارڈنگ مبینہ طور پر دروز مذہب کے ایک فرد سے منسوب کی گئی جس پر پورے ملک میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعے کے بعد جنوبی شام کے علاقے السویدا میں موجود ’الدروز روحانی کونسل‘ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس آڈیو ریکارڈنگ کی مذمت کی اور اس کے ملزم سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ادھر شامی وزارت داخلہ نے منگل کے روز ایک بیان میں بتایا کہ آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ ریکارڈنگ اُس شخص کی نہیں ہے جس پر الزام لگایا جا رہا ہے۔
جھڑپیں اور عوامی بیان
جرمانا شہر کے ایک مقامی باخبر ذریعے جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جھڑپیں رات دو بجے اُس وقت شروع ہوئیں جب غوطہ شرقیہ کے نواحی علاقے الملیحہ کی سمت سے شہر کے ایک داخلی راستے پر موجود ’النسیم‘ چوراہے پر سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر ایک نامعلوم مسلح گروہ نے فائرنگ کی۔ ذرائع کے مطابق رات چار بجے جھڑپیں دوبارہ شدت اختیار کر گئیں جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں صبح سویرے تک وقفے وقفے سے جاری رہیں اور شہر میں مقامی گروہوں نے سخت سیکورٹی اقدامات کیے۔ داخلی و خارجی راستوں پر چوکیاں مضبوط کر دی گئیں اور ہر آنے جانے والے کی کڑی نگرانی کی گئی۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر شامی شہریوں نے جرمانا کے باشندوں کی طرف سے منسوب ایک بیان گردش کرتا دیکھا، جس میں شہر کے نوجوانوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا: ’یہ ایک بزدلانہ عمل تھا جو نہ ہمارے اخلاق کی نمائندگی کرتا ہے، نہ ہمارے دین کی اور نہ ہی ہماری ان قومی اقدار کی جن کی بنیاد محبت اور باہمی بقائے باہمی پر رکھی گئی ہے۔ہم پوری سچائی کے ساتھ اُس فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کی مذمت کرتے ہیں جو اس جرم سے پہلے کی گئی اور ہم فتنے کی ان آوازوں کے پیچھے چلنے سے خبردار کرتے ہیں، جو صرف شام کے دشمنوں اور اس کی وحدت کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔‘
بیان میں سرکاری اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی ذمے داریاں پوری کریں اور فوری اور شفاف تحقیقات شروع کرکے ان تمام افراد کا محاسبہ کریں جنہوں نے اس جرم کی منصوبہ بندی کی، اس میں شریک ہوئے یا لوگوں کو اکسانے میں کردار ادا کیا۔ بیان میں زور دیا گیا: ’عدل ہی استحکام کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر امن ممکن نہیں۔‘ (جاری ہے)