ملکی سیاست ہمیشہ سے عدم استحکام کا شکار رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات بھی ہیں۔
سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، مگر جب وہ اندرونی مسائل میں الجھ جاتی ہیں، تو ان کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے اور جمہوری عمل متاثر ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں ماضی سے لے کر آج تک کئی بڑی جماعتیں اندرونی اختلافات کا شکار ہو کر تقسیم ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ درجنوں دھڑوں میں بٹ چکی ہے، پیپلز پارٹی نے بھی مختلف ادوار میں گروہ بندی دیکھی اور آج پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسی نوعیت کے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔
داخلی اختلافات کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں قیادت پر عدم اعتماد، پارٹی میں دھڑے بندی، نظریاتی اور عملی ترجیحات میں فرق، انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم اور جماعت کے فیصلے کرنے کا طریقہ شامل ہے۔ جب کسی جماعت میں تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری پیدا ہو جائے یا اس کے رہنما ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیں، تو اس کے اثرات جماعت کے اندرونی استحکام سے نکل کر ملکی سیاست پر بھی پڑتے ہیں۔ ایسی جماعت اپنی اصل قوت کھو بیٹھتی ہے، اس کے کارکن مایوس ہو جاتے ہیںاور اس کی عوامی مقبولیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ نتیجتاً مخالف جماعتوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور وہ سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ بنانے لگتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف، جو 2018 کے عام انتخابات میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھری تھی، آج داخلی خلفشار کا شکار نظر آ رہی ہے۔ یہ اختلافات کوئی اچانک پیدا ہونے والا مسئلہ نہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں میں بتدریج شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پارٹی کے کئی سینئر رہنما قیادت کے انداز پر کھلے عام سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ کئی دیگر پہلے ہی جماعت چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ عمران خان کی قیادت پر پارٹی کے اندر سے کئی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں، جن میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ چند قریبی مشیروں پر حد سے زیادہ انحصار کرتے ہیں اور دیگر سینئر رہنماؤں کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے نتیجے میں پارٹی میں دو واضح دھڑے بن چکے ہیں، ایک وہ جو عمران خان کے قریبی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرا وہ جو خود کو نظر انداز شدہ محسوس کرتا ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کا ہے، جو پی ٹی آئی میں ہمیشہ تنازع کا باعث رہا ہے۔ 2018 کے انتخابات کے دوران بھی کئی کارکنان اور رہنما ناراض ہو گئے تھے اور اب دوبارہ یہی مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ پارٹی کے بعض افراد یہ شکایت کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اصل نظریاتی کارکنوں کو پس پشت ڈال کر چند مخصوص لوگوں کو نوازا جا رہا ہے، جن کا جماعت کے بنیادی اصولوں سے زیادہ تعلق نہیں۔ اسی طرح، جب پارٹی اقتدار میں تھی، تب بھی کئی وزراءاور رہنماوں نے حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بعد میں ان کی ناراضی علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
داخلی اختلافات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جماعت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور اس کے کارکن مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ابتدائی دنوں میں جو جوش و جذبہ کارکنوں میں نظر آتا تھا، وہ آج اس طرح نظر نہیں آ رہا۔ جب کارکن اپنی قیادت سے مطمئن نہ ہوں، یا جب وہ دیکھیں کہ ان کی محنت کا صلہ صرف چند افراد کو مل رہا ہے، تو وہ مایوس ہو کر جماعت سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی مسئلہ آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کئی مقامی سطح کے رہنما اور کارکن اب پارٹی کے ساتھ پہلے جیسا تعلق نہیں رکھتے، جس کا اثر آنے والے انتخابات میں واضح ہو سکتا ہے۔
اس تمام صورتحال کا ملکی سیاست پر بھی براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔ چونکہ پی ٹی آئی ایک بڑی عوامی جماعت بن چکی ہے، اس لیے اس کی اندرونی کشیدگی سے سیاسی منظرنامہ متاثر ہو رہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی داخلی اختلافات کو ختم نہیں کرتی تو یہ ایک کمزور جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے اور اس کا فائدہ اس کی مخالف جماعتوں کو پہنچے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسے روایتی حریف اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیںاور کمزور اپوزیشن کی پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اپنی پسند و ناپسند کے مطابق فیصلے ملک پر مسلط کر سکتے ہیں۔
ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ایک وسیع النظر اور مفاہمتی پالیسی اپنائے۔ تمام رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیںاور کسی ایک مخصوص گروہ کو نوازنے کے بجائے پارٹی کے اصل نظریاتی کارکنوں کو آگے لایا جائے۔ اگر قیادت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو اس جماعت کا انجام بھی ان جماعتوں جیسا ہو سکتا ہے جو ماضی میں اندرونی اختلافات کی بھینٹ چڑھ کر زوال پذیر ہو چکی ہیں۔