اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے!

آج چاند کی رات ہے، عید کا چاند افق پر جگمگا رہا ہے مگر اس کی روشنی میرے زخموں کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ خوشی کے ترانے گونج رہے ہیں لیکن میرے دل کے نہاں خانے میں ماتم برپا ہے۔ میرے آنگن میں خون کے نشان اور بارود کی بو ہے۔

میرے بچوں کی ہنسی گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں دب چکی ہے۔ میرے شہروں پر آگ برسی ہے، میرے گھر مسمار ہو چکے ہیں اور میں اپنے دامن میں بکھری لاشیں سمیٹ سمیٹ کر تھک چکی ہوں۔ یا رسول اللہ! میں وہی امت ہوں جس کے لیے آپ نے راتوں کو آنسو بہائے تھے مگر آج میں خون میں لت پت ہوں۔ میں فلسطین کی گلیوں میں بکھری لاشوں میں اپنا چہرہ تلاش کر رہی ہوں، میں شام کی جیلوں میں پڑے بے جان جسموں سے اپنا رشتہ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہوںاور میں کشمیر کی وادیوں میں گونجتی سسکیوں میں اپنی آواز سننے کی ہمت کر رہی ہوں۔ میرا ہر عضو زخمی، میرا ہر شہر ویران، میرا ہر دروازہ شکستہ اور میری ہر گلی خون میں نہائی ہوئی ہے….
یا رسول اللہ! آپ کے قرب میں واقع فلسطین میںآج کوئی گھر ایسا نہیں جہاں بین نہ ہو، جہاں سسکیاں نہ ہوں، جہاں لاشیں نہ بکھری ہوں۔ پچاس ہزار سے زائد میرے بچے، میرے نوجوان، میری مائیںاور میرے بزرگ شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان میں وہ معصوم بچے بھی تھے جنہوں نے ابھی اس دنیا میں صرف آنکھ ہی کھولی تھی کہ آتش و آہن سے ان کا استقبال کیا گیا، ان کے منہ میں ابھی دودھ کی خوشبو باقی تھی، جو اپنی ماو¿ں کے سائے میں محفوظ سمجھے جاتے تھے مگر انہیں بموں کی بارش نے راکھ کر دیا۔ آج فلسطین کا ہر گھر اور محلہ برباد ہے، لاکھوں زخمی تڑپ رہے ہیں اور لاکھوں بے گھر ملبے کے ڈھیر پر کھڑے، عید ملن کے نام پر ایک دوسرے کو گلے لگا کر تسلی دے رہے ہیں اور میں ان کی چیخیں سن کر بے بس کھڑی ہوں۔
یا رسول اللہ! شام کی سرزمین آج بھی ان آنسوو¿ں کی گواہ ہے جو میری آنکھوں سے بہے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا لیکن وہی درد، وہی زخم، وہی ماتم آج بھی جاری ہے۔ خفیہ جیلوں میں میرے فرزندوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا، ان کی چیخیں دیواروں میں دفن کر دی گئیں اور ان کے خواب خاک میں ملا دیے گئے۔ بمباری، خانہ جنگی، قتل و غارت گری، میں ہر دن نئی لاشیں اٹھاتی ہوں، ہر رات نئے نوحے سناتی ہوں۔ یا رسول اللہ ! کشمیر آج بھی قید میں ہے، اس کی گلیاں فوجی بوٹوں کی گونج سے لرز جاتی ہیں، اس کی ہوا میں گولیوں کی بو بسی ہوئی ہے، اس کی فضاو¿ں میں آہوں اور سسکیوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ماوں کے سامنے بیٹوں کو چھین لیا جاتا ہے، بہنوں کے آنچل خون سے تر کر دیے جاتے ہیں، مسجدیں خالی کر دی جاتی ہیں، اذانیں دبادی جاتی ہیں اور میں بے بسی سے یہ سب سہنے پر مجبور ہوں۔ یا رسول اللہ! میں بہت دکھیاری ہوں، عراق اور افغانستان کی سر زمینیں بھی میری زخم خوردہ تاریخ کا باب ہیں۔ وہاں وحشت اور درندگی کے نشان آج بھی باقی ہیں، وہاں کے کھنڈرات میرے بکھرے خوابوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ نیٹو اور امریکہ نے مل کر میرے لہو کو پانی کی طرح بہا یا تھا۔ میرے شہر قبرستانوں میں بدل گئے ہیں، میرے بچے یتیم ہو گئے ہیں، میری عورتیں بیوہ ہو گئیں ہیں اور آج بھی میرے وجود پر زخم ہرے ہیں، نوحے تازہ ہیں اور میرا وجود مسلسل بین کررہا ہے۔ یا رسول اللہ! سرزمین عرب جہاں آپ کا پیغام اترا تھا، جہاں آپ کے جانثاروں نے اسلام کا پرچم بلند کیا تھا، آج وہ سرزمین اور اس کے باسی دنیا کی چکاچوند سے مرعوب ہو گئے ہیں۔ آج وہاں مغرب کی تقلید ہے، عیش و عشرت کے بازار ہیں۔ دبئی یورپ کا دوسرا روپ بن چکا ہے، نیوم سٹی میں ایمان کی روشنیوں کو دھندلایا جارہا ہے۔ میری وہی زمین جو سادگی اور تقویٰ کا نشان تھی آج عریانیت اور مادہ پرستی کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔ میرے اپنوں نے میرے دامن کو تار تار کر دیا ہے اور میں مسلسل بین کر رہی ہوں۔
یا رسول اللہ! میں پاکستان سے امید لگائے بیٹھی تھی، وہ پاکستان جو اسلام کا قلعہ تھا، جو میرا آخری سہارا اور میری ڈھال تھا۔ لیکن آج وہاں دہشت گردی کی لہر ہے، سیاسی انتشار ہے، معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، حکمرانوں کی بے حسی نے مجھے بے حال کر دیا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ میرا یہ آخری چراغ بھی بجھنے کے قریب ہے اور میں چیخ چیخ کر مدد کو پکار کر رہی ہوں۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ میرے اپنے سیاست کے نام پر تقسیم ہو چکے ہیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے، غریب روٹی کے لیے ترس رہا ہے، نوجوان مایوس ہو کر ہجرت پر مجبور ہیں۔ انصاف بک رہا ہے، عدل مصلحتوں کا شکار ہے اور حکمران مفادات کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یا رسول اللہ! میں بے یار و مددگار ہوں، میں تنہا ہوں، میں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہوں، میرا ہر عضو درد میں مبتلا ہے، میری امیدیں دم توڑ رہی ہیں، میرے دشمن مجھے نوچ رہے ہیں اور میرے اپنے یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔
یا رسول اللہ! میری مساجد اور مدارس محفوظ نہیں، میرے علماءخوفزدہ ہیں، میرے نوجوان بے راہ روی کی طرف رواں دواں ہیں، میری بیٹیاں مغربی ثقافت میں پناہ ڈھونڈ رہی ہیں۔ میرے بازاروں میں سود عروج پر ہے، میری عدالتوں میں ظالم کو سہولتیں دی جا رہی ہیں اور میرے تعلیمی ادارے اندھیروں میں ڈوب چکے ہیں۔ میری ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے اور میں بے بسی کی تصویر بنی کھڑی ہوں۔
یا رسول اللہ! پاکستان جو میرے لیے امید کی آخری کرن تھا اور جہاں سے مجھے روشنی پھوٹنے کی امید تھی وہ خود اندھیروں میں ڈوب چکا ہے۔ اس کے شہروں میں دھماکوں کی آوازیں ہیں، اس کی گلیاں بے گناہ لاشوں سے اٹی پڑی ہیں، اس کی مساجد میں سجدے خون میں ڈوب رہے ہیں۔ جس پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا تھا آج وہ خود دیواروں میں دراڑیں محسوس کر رہا ہے اور میں بے بسی سے اس کا زوال دیکھ رہی ہوں۔
یا رسول اللہ! اب آپ ہی بتائیں میں کیسے عید مناوں؟ کیسے خوشیوں کے دیپ جلاوں؟ افق پر چمکنے والے چاند کو دیکھ کر کیسے خوش ہو جاوں؟ جب میری گود اجڑ چکی ہے، میرا وجود تارتار ہو چکا ہے، میرا دامن زخمی ہے، میری روح نوچ لی گئی ہے اور میرا مستقبل اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔
یا رسول اللہ! اب آپ ہی بتائیں، بتائیے نا میں کیسے عید مناوں؟!
اے خاصہ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے