رمضان میں کھانا کھلانے کی اِسلامی روایت

(علی ہلال)

ماہِ رمضان کے آغاز کے ساتھ جہاں بدنی عبادتوں اور ریاضتوں کا دور شروع ہوتاہے وہیں سخاوتوں کے دروازے بھی وا ہوجاتے ہیں۔ اِسلامی دنیا میں بالخصوص ماہِ مبارک میں مخیر اور اصحاب استطاعت دل کھول کر لوگوں کو کھلاتے پلاتے ہیں۔ یہ روایت اِسلام کے زریں دور کی نشانی ہے جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جاری وساری ہے۔
مشہور مورخ مقریزی نے اپنی کتاب السلوک میں لکھا ہے کہ مصر میں 1398ء میں حکومت کرنے والے مملوکی سلطان برقوق الظاہر ماہ رمضان میں یومیہ 25 گائے ذبح کرتے تھے، جن کا گوشت پکایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہزاروں چپاتیاں بنوا کر مساجد، مدارس، خانقاہوں اور جیلوں پر تقسیم کیا جاتا تھا۔ فی کس ایک پاو¿نڈ گوشت اور تین روٹیاں دی جاتی تھیں۔ ابن کثیر نے اپنی شہرہ آفاق کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھاہے کہ سلطان آلپ ارسلان (1074ء) جنہیں سلطان العالم بھی کہاجاتا تھا، ماہ رمضان میں پندرہ ہزار دینار خرچ کرتے تھے، جو اس وقت 30 ملین امریکی ڈالر کی برابر رقم بنتی ہے۔
یمن کے حکمران سرور الفاتکی الحبشی (1132ء) ماہ رمضان میں دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ وہ غریبوں اور مستحق افراد کو کھلاتے تھے جس سے ان کے کچن کایومیہ خرچ ایک ہزار دینار ہوتا تھا، جو موجودہ دور میں دولاکھ ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ فاطمی وزیر البطائحی (1125ء) ماہ رمضان میں 16 ہزار سے دینار خرچ کرتے تھے جو موجودہ وقت میں 3.3 ملین ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ ماہ رمضان میں سخاوت اور اطعام کا دائرہ صرف بادشاہوں، امراوں اور سلطانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ دور کے مشہور علمائ، فقہاءاور محدثین بھی کھلانے والوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ مشہور کوفی فقیہ حماد بن ابی سلیمان (739ء) ماہ رمضان میں یومیہ 5 سو انسانوں کو روزہ افطار کرواتے تھے۔ عید کی رات ان میں سے ہر ایک کو کپڑے اور ایک سو درھم دیتے تھے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ماہ رمضان میں ’اکرامیات رمضان‘ کے نام سے روایت ڈالی تھی۔ وہ سرکاری خزانے سے ماہ رمضان میں رعایا کو یومیہ خرچہ دیا کرتے تھے۔ امام طبریؒ کے مطابق حضرت فاروق اعظمؓ رمضان میں فی کس ایک درھم یومیہ دیا کرتے تھے جبکہ امہات المومنین کو دو دو درھم ملتے تھے۔ کسی مشیر نے کہا کہ امیر المومنین اگر انہیں ایک ساتھ اجتماعی کھانا کھلایا جائے تو کیا درست نہیں ہوگا؟ جس پر عمر فاروق ؓ نے کہا کہ نہیں! میں پسند کرتا ہوں کہ لوگوں کو اُن کے گھروں میں کھلاو¿ں۔
زین الدین الملطی کے مطابق ماہ رمضان میں خریداری کے باعث بہت سی اشیاءناپید ہوجاتی تھیں اور ان کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا تھا۔ ایسی اشیاءمیں شہد، دیسی گھی اور گوشت و سبزیاں سرفہرست تھیں۔ ایسے موقع پر اسلامی حکومتیں مداخلت کرتیں اور مہنگائی اور اشیاءخورد و نوش کی قلت کا حل نکالنے کے لیے اقدامات کرتیں۔ ابن حجر العسقلانی نے ’انباءالغمر بابناء العمر ‘میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دمشق میں مہنگائی اور اشیاء خوردونوش کا قحط ہونے لگا، جس پر مملوکی نائب سلطان نے تمام غرباءو فقراءکو ایک میدان میں جمع کرلیا اور انہیں دمشق کے تمام تاجروں ، صنعت کاروں، شہزادوں اور ججوں پر تقسیم کرکے ان کے ذمہ ان کے اخراجات لگوا لیے، جس سے بھیک مانگنے کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا۔ الملطی نے نیل الامل میں لکھا ہے کہ ماہ رمضان میں سلاطین اور امراءقیمتیں مقرر کرتے تھے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا انتظام سخت ہوجاتا تھا۔ جب گندم کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا تھا تو سلاطین سرکاری خزانے کی گندم نکال کر اس کی ایسی قیمت مقرر کرتے تھے جو ہر کسی کے بس میں ہو، جس سے بازاروں میں گندم کی قیمت خودبخود کم ہوجاتی تھی۔
اندلس اور شمالی افریقہ میں ماہِ رمضان میں مسلمانوں نے نت نئی روایات ایجاد کی تھیں، جس میں سحری کے وقت جگانے والے مسحراتی کی روایت اور افطاری کے وقت بونگا بجانا شامل ہے۔ افطاری کے وقت نقارہ بجایا جاتا تھا تاکہ روزہ داروں کو افطاری کے بارے معلوم ہو۔ مورخین کے مطابق ماہ رمضان عہد نبوی سے ہی جود وسخاءاور کرم کا مہینہ رہا ہے۔ اس ماہ میں ہمیشہ سے فراخی رکھنے والے افراد ماہ رمضان میں دوسروں پر خرچ کرتے تھے۔ مصر، بغداد، شام اور شمالی افریقہ کے بعض علاقے اس حوالے سے خاصے مشہور تھے جہاں ماہ رمضان میں کوئی بھوکا نہیں رہتا تھا۔