زیر التوا ء کیسز کے باعث اربوں روپے کی ٹیکس وصولیاں پھنس گئیں

اسلام آباد:ملک بھرکی عدالتوں میں زیر التوا ء کیسز کے باعث اربوں روپے کی ٹیکس وصولی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

نجی ٹی وی نے سپریم کورٹ کی ٹیکس مقدمات کے حل کیلئے بنائی کمیٹی کی سفارشات کے حوالے سے کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ایک لاکھ8366 مقدمات زیرالتوا ء ہیں،4457ارب روپے کی رقم شامل ہے، سپریم کورٹ میں تقریباً 6 ہزار ٹیکسز کے مقدمات زیرالتوا ء ہیں۔

تقریباً 2 ہزارکیسز ٹریبونلز، عدالتوں میں زیرالتوا ء ہیں جن میں حکم امتناع جاری کیے جاچکے ہیں۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ سپریم کورٹ میں ایک اے ڈی آریونٹ قائم کیا جائے، ایف بی آر اور دیگر ریاستی اداروں کے اے ڈی آر نظام کی نگرانی کی جاسکے۔

سپریم کورٹ اورتمام ہائیکورٹس میں ایک اے ڈی آر سیل قائم کیا جائے۔سرکاری ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں صرف ٹیکس سے متعلق 6000 مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں اربوں روپے کی ممکنہ وصولیاں شامل ہیں۔

اسی طرح، مختلف ٹریبونلز اور عدالتوں میں تقریبا 2 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں جہاں اسٹے آرڈرز کے باعث ان کے حل میں کئی سالوں سے تاخیر ہو رہی ہے۔ ان مقدمات کو بروقت حل نہ کرنے سے نہ صرف قانونی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں بلکہ ٹیکس وصولی کی کوششیں بھی متاثر ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان پہنچ رہا ہے۔

اس تشویشناک صورتحال کے جواب میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کا جائزہ لینے، رکاوٹوں کی نشاندہی کرنے اور ٹیکس سے متعلق تنازعات کے فوری حل کے لیے حل تجویز کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ یہ جائزہ لے کہ ٹیکس آمدنی سے متعلق مقدمات کیوں بڑھ رہے ہیں اور ان کے جلد از جلد حل کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار تجویز کرے۔

کمیٹی میں رجسٹرارسپریم کورٹ سلیم خان، عاصم ذوالفقار، شیر شاہ خان ، ڈی جی لا ایف بی آر اشتیاق احمد خان اور ٹیکس ماہر امتیاز احمد خان شامل ہیں۔ جو کہ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ جائزہ لیں کہ آخر کیوں کر ریونیو سے متعلق مقدمات بڑھتے چلے جارہے ہن اور ادارتی میکنزم کے حوالے سے سفارشات پیش کرین تاکہ ان کا حل تیز تر ہو سکے۔

ان ہی کوششوں کے حصے کے طور پر اس کمیٹی نے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہے جن میں ایف بی آر، سپریم کورٹ بار، پنجاب ٹیکس بار ایسوسی ایشن ، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور دیگر کاروبار اور صنعت کے نمائندے شامل تھے۔اجلاس میں موجود عہدیداروں نے باور کرایا کہ ان مقدمات کے زیر سماعت ہونے کے کام کی وجہ دراصل اعلی عدلیہ میں مختص ریونیو بینچز کا نہ ہونا ہے۔