استحکام وطن کے تقاضے

مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک منفرد محل وقوع، جغرافیائی عوامل، معدنی ذارئع، نظریاتی تشخص اور ثقافتی وجود رکھتی ہے۔ اگر اس خطے میں مسلم تاریخ کا کھوج لگایا جائے تو بانی ئ پاکستان محمد علی جناحؒ کے بقول پاکستان تو اسی روز معرضِ وجود میں آ گیا تھا، جب کسی مسلمان نے سب سے پہلے اس خطے پر قدم رکھا تھا۔

711ء میں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ برصغیر میں پہلی اسلامی ریاست کا آغاز ہوگیا۔ اگرچہ اس سے پہلے عہدِ فاروقی میں مکران (بلوچستان) کے علاقے میں صحابہؓ اور تابعینؒ کی ایک جماعت قدم رنجہ فرما چکی تھی۔ ان کی قبور آج بھی وہاں پر موجود ہیں، جن کی نسبت سے پنج گور کا قصبہ معروف ہے۔ صحاح ستہ کے ایک مجموعے کے مدون امام ابوداؤدؒ کا تعلق سجستان سے ہے، جو اُس عہد میں بلوچستان کی جغرافیائی حدود میں تھا۔ یوں برصغیر میں اسلامی سلطنت کو اصل قوت سندھ اور بلوچستان کے راستے سے فراہم ہوئی۔ امویوں اور عباسیوں نے سندھ میں اپنے گورنر مقرر کیے جس کے نتیجے میں 282 سال تک عرب خاندانوں کی حکومت سندھ میں قائم رہی۔ اس کے بعد مقامی سومرہ خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی۔ اس مقامی حکومت نے باطنی مذہب کو اپنا لیا، جس کے باعث اس کی سیاسی وفاداریاں فاطمینِ مصر کے ساتھ قائم ہو گئیں۔ اسی دور میں افغانستان میں غزنوی برسرِ اقتدار آئے۔ ہندوستان میں اس زمانے میں جے پال کی حکومت تھی جو غزنویوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو روکنا چاہتا تھا مگر سبکتگین نے اسے غزنی کے قریب شکست دی اور نتیجتاً وہ صلح پر مجبور ہو گیا۔ غزنوی سلطنت کی سرحدیں پشاور تک قائم ہوگئیں۔ محمود غزنوی نے 1022ء میں پنجاب کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا اور لاہور کو پایہئ تخت بنایا جہاں 918 سال بعد بانی ئ پاکستان محمد علی جناحؒ کی صدارت میں دوقومی نظریے پر مبنی ایک اسلامی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور ہوئی۔

برصغیر کی ملتِ اسلامیہ ایک ہزار سالہ اقتدار کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سیاسی اقتدار سے محروم ہو کر قعر مذلت میں گر گئی۔ لیکن بہت جلد اس میں آزادی کی تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے مسلمانوں کے تنِ خستہ میں ایک نئی روح ڈال دی۔ تحریکِ مجاہدین نے ایک ولولہئ تازہ دیا۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری نے مغربی تہذیب کا نقاب اتار دیا۔ حالیؔ کی مسدس نے ماضی کے جھروکوں سے مستقبل کی درخشندگی کی تصویر دکھائی۔ اقبالؔ نے ملت کی خاکستر میں چھپی چنگاریوں کو شعلہئ جوالہ بنا دیا۔ ملتِ اسلامیہ کی درماندگی پر فطرت کو رحم آ گیا اور بانی ئ پاکستان محمد علی جناحؒ کی صورت میں وہ بطلِ جلیل اور مردِ حریت سامنے آیا جس نے ملّی قیادت کے پرچم کو سربلند کر دیا۔ بیسویں صدی کی ملتِ اسلامیہ کے پاس قائداعظمؒ سے بہتر سیاسی بصیرت اور تدبر رکھنے و الی کوئی اور شخصیت نہ تھی۔ متوسط درجے کے کاٹھیاواڑی تاجروں کے سپوت نے انگریز کے پٹھوؤں اور ان کے کاسہ لیس جاگیرداروں کی دوغلی پالیسی کے باوجود منزل مراد کو حاصل کر لیا۔ یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا۔
نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے
پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے68  برس گزر چکے ہیں۔ یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں کوئی معمولی اہمیت نہیں رکھتا۔ کم از کم تین نسلیں اس میں پرورش پا چکی ہیں۔ مگر قومی اور ملی سطح پر ابھی تک ہم بہت سی محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار ہیں۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی کا موجودہ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے۔ اس کے زرعی اور معدنی وسائل ایسے ہیں کہ ہمیں خود انحصاری پر مبنی معیشت کو رواج دینا چاہیے۔ مگر ہماری معاشی صورتِ حال مسلسل قرضوں کے باعث مفلوج ہو چکی ہے۔ معاشرے کے بعض طبقات میں انتہا پسندی کی علامتیں پائی جاتی ہیں۔ ہم ایک امتِ وسط اور اعتدال کے رویوں کو حاصل کیوں نہیں کر سکے، اس پر مسلسل توجہ کی ضرورت ہے۔ ہماری مملکت کا ایک واضح دستور ہے جس کی حقیقی روح پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں صوبائی منافرت کے جراثیم ملی وجود کو بیمار کر رہے ہیں۔ توانائی کا بحران ہماری قومی اور صنعتی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، اس کے خاتمے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں ہے؟ معاشرے میں جرائم کی مسلسل بڑھتی ہوئی لہر کہیں رکنے کا نام نہیں لیتی، اس کے اسباب و وجوہ پر غور کر کے اس کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر کاوش کیوں نہیں کی جاتی؟ ہمارا تعلیمی نظام اعلیٰ معیارات سے بہت دور ہے۔ تحقیق ہمارے تعلیمی نظام میں وہ اعتبار حاصل نہیں کر سکی جو کسی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہو سکتی ہے؟ دینی مدارس میں جو نصابِ تعلیم پڑھایا جا رہا ہے، اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ سوچ اور تنگ نظری پیدا ہو رہی ہے۔ اس میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ملی مقاصد کو بروئے کار لانے کی سوچ کیوں مفقود ہے؟ فقہ کا تقابلی مطالعہ اور جدید تمدنی مسائل پر اجتہادی بصیرت پیدا کرنے کے ذرائع پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی؟ اردو زبان ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکی۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے ساتھ اس قومی زبان کی سرپرستی نہ کرنے کی بنا پر ہم اپنی ملی تشکیل اور قومی مزاج سے محروم ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے اگرچہ ملک میں بہت ترقی کی ہے مگر وہ اٹھارہ کروڑ افراد کو ایک متحد الفکر قوم بنانے کے فریضے سے غافل ہیں۔ میڈیا شعور تو پیدا کر رہا ہے مگر اس کے نتیجے میں ذہنی انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عورتوں کے حقوق معاشرے میں پامال ہیں اور کم عمر بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ایک بہت بڑی تعداد میں قبل از وقت ملازمت کرنے پر مجبور ہیں، جس کے باعث ان کی موزوں ذہنی تربیت پر ہماری کوئی توجہ نہیں۔ ایسے گوناگوں اسباب کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر سامراجی قوتیں خوف زدہ کر رہی ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور یہ (معاذ اللہ) بہت جلد اپنا وجود کھودے گی۔ بہت سے عناصر اس قسم کی مایوسی پھیلا کر قوم میں بے عملی، انتشار اور انار کی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک قومی سطح پر سب سے پہلے ہمیں اس مایوسی اور افسردگی کی فضا سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ایک توانا قوم اور موزوں وسائلِ معیشت کا ملک ہے، جس میں ترقی و تعمیر کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ اس ملک کی جغرافیائی صورتِ حال پر توجہ کریں تو جا بجا قدرت کی فیاضیاں دکھائی دیں گی۔ قومی اور ملی قیادت کا بحران اگر ختم ہو جائے تو ہم اپنے وسائل پر زندہ رہنے کی مکمل اور بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں جن اہداف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔
ہمیں سب سے پہلے نظریاتی تشخص کا دفاع کرنا چاہیے۔ قومیں معاشی بحران سے ختم نہیں ہوتیں مگر نظریاتی اور ثقافتی شناخت کھو کر تاریخ میں مرقعئ عبرت بن جاتی ہیں۔ غربت بلاشبہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہے مگر اس کا علاج معاشی ناہمواریوں کو ختم کر کے سادگی کے کلچر کو اپنانے میں مضمر ہے۔ قومی سطح پر ہم ایک سادہ طرزِ زندگی کے خوگر نہیں رہے۔ اس سلسلے میں حکام بالا اور خوش حال طبقے کو مثال قائم کرنا ہو گی۔ ہمارے بہت سے وسائل غیر تعمیری کاموں پر صرف ہو رہے ہیں۔ قرضوں کی معیشت کو ختم کر کے خود انحصاریت کے کلچر کو رواج دینا ہوگا۔
جہالت اور خواندگی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دوسرے تمام مسائل اس کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر بہت جلد ایسی تعلیمی پالیسی بنانا چاہیے جس میں کم سے کم وقت میں مکمل خواندگی کی سطح کو حاصل کیا جاسکے۔ قومی زبان کو ذریعہئ تعلیم بنائے بغیر یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ بیسیوں قسم کے نصاب ہائے تعلیم کے بجائے قومی سطح کے ایک مربوط نصابِ تعلیم کو جو ہماری نظریاتی اور ثقافتی قدروں سے ہم آہنگ ہو، فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیمی معیار اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اساتذہ کی ہمہ وقت تربیت اور ان کی ذہنی آسودگی کا اہتمام نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں اساتذہ کی علمی، تدریسی اور تحقیقی ترقی کے لیے موزوں ادارے نہیں بنائے گئے۔
دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو اب سنجیدگی سے اپنے نصابات کی تشکیلِ جدید پر توجہ دینا ہو گی، وگرنہ جس قسم کے ائمہ اور خطیب وہ پیدا کر رہے ہیں‘ نئی نسلیں ان سے مطمئن نہیں ہیں۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور معاشرتی وحدت کا نقیب ہے۔ ہم نے اس دینِ فطرت کو فقہی تنگ نائیوں کا شکار کر رکھا ہے اور یہ جدید تمدنی اور سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ علمائے کرام اگر اخلاص اور شعور سے توجہ دیں گے تو وہ ایک ایسی راہِ عمل ترتیب دے سکتے ہیں، جس سے ان کے علمی اور معاشرتی وقار میں اضافہ بھی ہو گا اورامت کی وحدت کے سامان بھی پیدا ہوں گے، جن کی موجودہ ماحول میں اشد ضرورت ہے۔
قومی وحدت کے فروغ میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے کردار کی اہمیت ہر صاحب نظر پر واضح ہے۔ مگر ہمارے چینل حالاتِ حاضرہ پر تبصرے تو بہت اچھے کرتے ہیں لیکن قومی وحدت کے حصول کے لیے کوئی نمایاں خدمات انجام نہیں دے رہے۔ ہمیں ابلاغ کے ان ذرائع سے یہ بھی اختلاف ہے کہ وہ تفریح کے مثبت پروگرام پیش کرنے کا تخلیقی شعور نہیں رکھتے۔ ان کی کمرشل ضرورتوں کا احترام بجا مگر پروگراموں کی علمی اور ثقافتی سطح کو اپنے مخصوص نظریاتی تشخص کے حوالے سے پیش کرنا، ایک قومی ضرورت ہے۔ میڈیا کو اگر قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تو قوم کو بہت جلد مایوسیوں سے نکال کر عصری چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جا سکتا ہے۔
معاشی سطح پر نوجوانوں کو میٹرک کے بعد ایسی فنی اور ووکیشنل تعلیم فراہم کی جائے، جس کے باعث وہ محض دفتروں میں ملازمت تلاش کرنے کے بجائے اپنی فنی مہارتوں کے ذریعے سے معاشرے کی خدمت کرنے کے ساتھ اپنے لیے باوقار معیشت کا انتظام بھی کریں۔ اسی طرح گھریلو خواتین کے لیے بالخصوص دیہاتوں میں ایسے صنعت و حرفت کے منصوبے بروئے کار لائے جائیں جس سے ان خاندانوں کی معاشی کفالت میں مدد ملے اور قومی معیشت کو بھی اس سے سہارا ملے۔ قوم کی سیاسی، معاشی، عدالتی اور تعلیمی اصلاح سے زیادہ اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کا دستوری تقاضا ہے کہ ہم باشندگانِ وطن کو بہترین مسلمان بنائیں۔ ان کی اخلاقی تربیت کے لیے تمام قسم کے تعلیمی، دعوتی اور ابلاغی وسائل کو بروئے کار لائیں۔ اس سلسلے میں ایک ملک میں عوامی کتب خانوں کو رواج دینا چاہیے۔ نیز بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک مستقل تعلیمی چینل ترتیب دینا چاہیے جو ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کے مقاصد کو پورا کر سکے۔