امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل میں ایسی قرارداد کی حمایت کرنا جو فلسطینیوں کے مطالبات اور حقوق کے منافی ہے ناقابل قبول ہے۔اپنے ایکس بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی فلسطین پالیسی سے انحراف ہے، کوئی شک نہیں کہ ایسا صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ قرارداد غزہ کی پٹی پر بین الاقوامی سرپرستی کا وہ نظام مسلط کررہی ہے جو اسرائیل دو سالہ ظالمانہ جنگ اور نسل کشی کے بعد بھی حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان کی جانب سے اس کے حق میں ووٹ کی مذمت کرتے ہیں ہے۔ مخالفت تو درکنار آپ سے تو غیر جانبدار رہنابھی نہ ہوسکا۔ اتنا بھی کیا خوف؟ غزہ صرف فلسطینی عوام کا ہے، کسی اور کو اس پر قبضے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے۔
ادھر لاہور پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس میں گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت 27ویں ترمیم کی گونج ہے، اس کے بعد 28ویں 29 ویں اور 30ترامیم آئیں گی، مگر حکمران ان ترامیم کے بعد بھی قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ جماعت اسلامی نے ایسی تمام ترامیم کو مسترد کر دیا ہے وہ وقت جلد آنے والا ہے جب یہ ترامیم واپس ہوں گی۔ حاکمیت صرف اللہ کی ہے کسی فرد کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں، ترامیم کرنے اور کروانے والے سب ایک ہیں۔ ن لیگ ہو، پیپلزپارٹی یا ایم کیو ایم سب ایک دوسرے کی اتحاد ہیں۔
کراچی میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حالیس سال سے رفاقت ہے، جب عوام کے جمہوری حقوق سلب کیے جائیں گے تو لوگوں کے اندر مایوسی اور انارکی پھیلے گی جس کی ذمہ دار کوئی حکومت نہیں ریاست ہو گی۔ ملک میں ظلم کا نظام ہے اور یہ طاقتور کے ہاتھ کی چھڑی بن چکا ہے۔ جماعت اسلامی کا اجتماع عام اس نظام کو بدلنے کی تحریک کا نقطہ آغاز ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حکمرانوں نے اگر عدل و انصاف کے دروازے بند کر دیے تو پھر عدالتیں چوکوں اور چوراہوں میں لگیں گی جس سے انارکی پیدا ہو گی، اگر فارم 47سے حکومتیں بننے لگیں تو عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ہارس ٹریڈنگ سے بھی کوئی بڑی چیز آئے گی، یہ کیسا نظام ہے جس میں پہلے غیرجماعتی انتخاب ہو گا اور پھر منتخب لوگوں کو کسی جماعت میں شامل ہونے کا کہا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ان غیرجماعتی الیکشن کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بلدیاتی اور سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں،مگر حکومت نے طلبہ اور مزدور یونینز کے انتخابات پر پابندی عائد کررکھی ہے جس سے ملک میں جمہوری ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اتحادوں کی بجائے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتی رہتی تو آج ایک بڑی سیاسی قوت ہوتی۔ اتحاد بغیر دھوکے کے چلے تو بہتر ہوتا ہے، مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔جماعت اسلامی نے طے کر لیا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے بات کرے گی، مگر الیکشن اپنے نشان پر لڑے گی۔

