پشاور:پشاور میں سیاسی گہماگہمی عروج پر پہنچ گئی ہے جہاں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے استعفے کے بعد اقتدار کی نئی بساط بچھنے لگی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی سینئر قیادت اور رہنما اس وقت پشاور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور وزارت اعلیٰ کے منصب پر قابض ہونے کے لیے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔
ذرائع کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے مشاورتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے تمام جماعتوں میں فعال بحثیں چل رہی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) 18 نشستوں کے ساتھ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور وزارت اعلیٰ کے لیے اپنا امیدوار لانے کے فیصلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ کی قیادت میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی، تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز اور دیگر جماعتوں کی مشاورتیں جاری ہیں، تاہم جے یو آئی کی جانب سے الگ مشاورتوں کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر عباد اللہ نے گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا تھا جب کہ اپوزیشن وفد نے گورنر فیصل کریم کنڈی اور مولانا فضل الرحمان سے اسلام آباد میں ملاقات طے کی تھی مگر راستوں کی بندش کے باعث ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ اب اپوزیشن وفد مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ملاقات کرے گا اور اپوزیشن اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مشاورت کرے گا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختوںخوا کے چناؤ کیلئے پی ٹی آئی نے جمعیت علماء اسلام سے رابطہ کرلیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کا وفد جے یو آئی مرکز پہنچ گیا۔ پی ٹی آئی کے وفد میں جنید اکبر، عرفان سلیم اور دیگر رہنما شامل تھے۔
جے یو آئی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سینیٹر مولانا عطا الحق درویش، مولانا جلیل جان اور دیگر رہنماؤں نے پی ٹی آئی وفد کا استقبال کیا۔پی ٹی آئی نے جے یو آئی سے وزیر اعلٰی سہیل آفریدی کے انتخاب میں تعاون کی درخواست کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر جنید اکبر نے کہا کہ پیر کے روز اسمبلی اجلاس طلب کررہے ہیں جس میں نامزد وزیراعلی کا انتخاب ہوگا۔دریں اثناء گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی نے علی امین گنڈاپور کا استعفا موصول ہونے کی تصدیق کردی جب کہ انہوں نے فوری منظوری سے معذرت کرلی۔
ذرائع کے مطابق استعفا وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسداد بدعنوانی بریگیڈیئر (ر)مصدق عباسی گورنر ہائوس لے کرگئے۔مصدق عباسی نے علی امین گنڈاپور کا استعفا گورنر ہائوس کے کیئرٹیکر کے حوالے کیا اور کیئر ٹیکر نے استعفا وصول کرکے رسید بھی دی جب کہ استعفے کی وصولی کی رسید پر ڈھائی بجے دوپہر کا وقت درج ہے۔
دوسری جانب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے بتایا کہ آج ڈھائی بجے وزیرا علیٰ کا ہاتھ سے لکھا استعفاموصول ہوا ہے جس پر 11 اکتوبر کی تاریخ درج ہے، استعفے کی جانچ پڑتال اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد اس پر باقاعدہ عملدرآمد ہوگا۔
علاوہ ازیں ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا نے فوری طور پر علی امین گنڈاپور کا استعفا منظور کرنے سے معذرت کرلی، استعفے پر گورنر ہاؤس نے ابتدائی قانونی کارروائی مکمل کر لی۔ذرائع نے مزید بتایا کہ گورنر خیبر پختونخوا نے معاملے پر حتمی آئینی رائے اور مشاورت کے لیے پیر کو قانونی ٹیم کو طلب کرلیا۔
آج اتوار کے باعث گورنر ہاؤس کا قانونی عملہ دستیاب نہیں ہوگا، پیر کو استعفے سے متعلق آئینی تقاضوں، ممکنہ پیچیدگیوں اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔
علاوہ ازیںگورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے علی امین گنڈا پور کا استعفا منظور نہ کرنے کی صورت میں پی ٹی آئی نے متبادل پلان تیار کرلیا۔میڈیارپورٹ کے مطابق گورنر استعفا منظور نہ بھی کریں تو پی ٹی آئی کے پاس قانون میں دوسرے راستے موجود ہیں، گورنر استعفا منظور نہ بھی کرے تو علی امین گنڈاپور کا استعفا منظور تصور ہوسکتا ہے، جب علی امین گنڈاپور نے لکھ کر اور زبان سے بول کر کہہ دیا تو یہ کافی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے مطابق آئین کے آرٹیکل 130کلاز 8میں استعفے کا طریقہ کار واضح ہے، اس آرٹیکل میں صرف استعفا گورنر کو بھیجنے کا کہا گیا ہے، باقی گورنر کی منظوری کا کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔
شاہ فیصل ایڈووکیٹ کے مطابق استعفے کی دو اقسام ہیں ایک زبانی اور ایک تحریری طور پردینا، بائی لٹرل میں منظوری لازمی ہوتی ہے جبکہ یونی لٹرل میں منظوری لازمی نہیں ہوتی، ایسے معاملات میں مختلف عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے آپشن کو ناقابل عمل قرار دے دیا گیا۔ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی سیکریٹریٹ میں آئینی ماہرین کا اجلاس ہوا جس میں مستعفی ہونے والے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر غور کیا گیا۔
آئینی ماہرین نے قرار دیاکہ اسمبلی سیکریٹریٹ کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ استعفا دے چکے ہیں،اس لیے مستعفی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی۔ذرائع کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کو عدالت میں چیلنج کیاجاسکتا ہے، پی ٹی آئی نے آئینی ماہرین اوراسمبلی سیکرٹریٹ کی سفارشات کے بعد عدم اعتماد کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔
 
                        
 
             
                             
                             
                             
                             
                             
		
 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				