اسلام آباد/لاہور:پیپلز پارٹی نے قانون سازی میں وفاقی حکومت کا ساتھ دینے سے معذرت کرلی۔ذرائع کے مطابق حکومت نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پیپلز پارٹی سے ایک اور رابطہ کیا، حکومت نے پیپلز پارٹی سے قانون سازی میں تعاون کی درخواست کی تاہم پیپلز پارٹی نے قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دینے سے معذرت کرلی۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں علامتی طور پر شرکت کرے گی، کسی بھی قانون سازی میں حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ حالات کی مزید خرابی کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہو گی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی وطن واپسی پر معاملہ نوٹس میں لائیں گے۔دوسری جانب صدر مملکت آصف علی زرداری پنجاب اور سندھ کی حکومتوں میں لفظی جنگ بندی کیلئے متحرک ہوگئے۔صدر مملکت اور وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں صوبائی حکومتوں کے درمیان کشیدگی کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔
صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر وزیرداخلہمزید بات چیت اور مشاورت کیلئے کراچی پہنچ گئے۔ادھرپنجاب اور سندھ حکومتوں کے درمیان سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر لفظی جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے۔
پیپلز پارٹی نے پیر کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا،اسی دوران حکومت نے اتحادی جماعت کو منانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیمبر میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات کی تفصیلات تو منظرعام پر نہیں آئیں البتہ وفاقی وزیر رانا ثنااللہ نے تصدیق کی کہ پیپلز پارٹی اپنا احتجاج اور پارلیمنٹ سے واک آؤٹ جاری رکھے گی۔رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب کی معافی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی پیر کو صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات طے تھی، تاہم وزیراعظم کے دورہ ملائیشیا کے باعث یہ ملاقات ممکن نہیں ہو سکی۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم منگل کو وطن واپس آ کر پیپلز پارٹی کے تحفظات پر بات چیت کریں گے اور معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے گا۔
دریں اثناء سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی پی رکن شیری رحمان نے کہا کہ ملک میں سیلاب اور آفت آئی ہوئی ہے، سندھ اور پنجاب کے لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، پی پی پی کی قیادت کی طرف سے کہنا چاہوں گی کہ ہم لوگوں کو تقویت دینے کے بجائے کمزور کررہے ہیں، پنجاب حکومت اور سندھ حکومت میں الفاظ کی جنگ کا اثر وفاقی حکومت پر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کارڈ پلے ہوکر ریڈ لائن کراس ہورہی ہے،بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے بارے میں باتیں کرنا نامناسب ہے، پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہے، بلاول بھٹو نے بس اتنا کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کرکے سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے مگر لوگوں کی تذلیل کرکے حکومتی اتحاد نہیں چلا کرتے، معافی مانگ کر کسی کی عزت نفس میں کمی نہیں ہوتی۔
شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کلائمیٹ جسٹس کی بات کی ہے، جنوبی پنجاب سیلاب سے تباہ ہوا ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں مگر جو الفاظ ادا کیے گئے مجھے انہیں دہراتے ہوئے شرم آرہی ہے، اگر ہماری قیادت سے معافی نہیں مانگی گئی تو ہمیں گرانٹڈ نہیں لیا جائے۔
ان الفاظ کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر کسی کے الفاظ سے دل آزاری ہوئی ہے تو بطور سیاسی کارکن مجھے دکھ ہے، صدر زرداری بزرگ سیاست دان ہیں وہ صلح جوئی کا کردار ادا کریں گے، اپوزیشن خوش نہ ہو کوشش کریں گے کہ دوستوں کو منا کر واپس لے آئیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے فرینڈلی فائر کا خیر مقدم کرتے ہیں، پیپلز پارٹی عدم اعتماد لے آئے ساتھ دیں گے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی پی پی کے رکن اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ہم پنجابی ہیں لیکن سب سے پہلے پاکستانی ہیں، میں اس تنازع کو انتہا تک نہیں لے جانا چاہتا کسی کا نام نہیں لوں گا، بلاول نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعریف کی، ایسا نہ ہو کہ یہاں صوبائیت کی بدبو پھر پھیل جائے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ہم وفاق کو کمزور کرنے والے نہیں پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کہیں بھی کوئی چنگاری نہ اٹھے، ہم خیر، عزت و احترام کی بات کرتے ہیں، جو کہا گیا وہ یہاں دہرا نہیں سکتا لیکن اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ جب تک پنجاب کی طرف سے مطمئن نہیں کیا جاتا کارروائی میں حصہ لینا ممکن نہیں، پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی سیکورٹی لے لی گئی ہے۔
علاوہ ازیں وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے شرجیل میمن کا مناظرے کا چیلنج قبول کرلیا ہے، وہ ہمارے اتحادی ہیں ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں لیکن جیسی بات کریں گے ویسا جواب آئے گا۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب نے ہمیشہ بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کیا ہے، قدرتی آفت کسی بھی صوبے میں آئے، پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا لیکن پنجاب میں مشکل وقت آیا تو لوگوں نے سیاست کی، وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ مشکل وقت میں پنجاب کے ساتھ ایسا سلوک رکھاجائیگا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں تین دریائوں میں سیلاب آیا، اگر پنجاب حکومت تیار نہ ہوتی تو نقصان بڑے پیمانے پر ہوتا، ملتان اور مظفر گڑھ میں سیلاب کے باعث مشکلات آئیں، 25 اضلاع میں واقعات رپورٹ نہیں ہوئے۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گھر یا سولر پروگرام بکتا نہیں، ایک بیان دیکھا 90 ہزار گھر کہاں ہیں؟ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ 47 لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور 17 اکتوبر کو سیلاب متاثرین کو چیک کی تقسیم کی جائیگی، 400 دیہات کا سروے ہوچکا ہے۔

