فلسطین پر سب سے پہلے حضرت عمرو بن العاص نے 13ھ میں فوج کشی کی اور غزہ پر قبضہ کرنے کے بعد قیساریہ کا محاصرہ کر لیا، مگر یونانیوں کے ایک بڑے لشکر کی آمد کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر پیچھے ہٹنا پڑا۔ بعد میں مزید مجاہدین کو جمع کر کے انہوں نے اجنادین کے مقام پر یونانیوں کو شکست دی اور سبطیہ، نابلس، لد، عمواس اور بیت جبرین سمیت بہت سے فلسطینی شہر فتح کر لیے، جبکہ 17ھ میں بیت المقدس فتح ہوا اور اس کے بعد قیساریہ کا محاصرہ کیا گیا۔ اس دوران حضرت عمرو بن العاص کو بلا لیا گیا اور اس مہم کی قیادت حضرت یزید بن ابی سفیان کے سپرد کر دی گئی۔ ان کی وفات کے بعد اس لشکر کے امیر ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ بنے۔ ان کی قیادت میں قیساریہ اور عسقلان فتح ہوا اور فلسطین مکمل طور پر اسلامی قلمرو میں شامل ہوگیا۔پانچویں صدی ہجری کے آخر میں متحدہ صلیبی فوجوں نے یلغار کر کے بیت المقدس پر پھر قبضہ کر لیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے 80برس کے بعد واگزار کرا کے اس پر اسلامی پرچم لہرایا۔ اس کے بعد سے فلسطین ایک مسلم ریاست کے طور پر اسلامی اُمہ کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ ترکی کے سلطان سلیم اوّل نے 1517ء میں اس پر قبضہ کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا اور چار سو سال تک فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک صوبہ رہا۔ اس دوران یہودیوں کی مسلسل کوشش رہی کہ وہ بیت المقدس میں داخل ہوں اور وہاں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کریں مگر خلافت عثمانیہ نے اس کا راستہ نہیں دیا:
٭سلطان عبد الحمید ثانی کے دور میں یہودیوں کی عالمی تنظیم نے باقاعدہ پیشکش کی کہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی جائے تو وہ خلافت عثمانیہ کے سارے قرضے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر سلطان عبد الحمید نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف سلطان عبد الحمید کو خلافت سے محروم ہونا پڑا بلکہ کچھ عرصہ بعد خلافت عثمانیہ کا ہی تیاپانچہ کر دیا گیا۔
٭پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیا جس کی شرائط میں یہ شامل تھا کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کیا جائے اور انہیں وہاں آباد ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ چنانچہ جنگ عظیم میں جرمنی اور اس کی حلیف سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور اس پر اپنے اقتدار کا اعلان کر دیا۔
٭ 1917ء کو ”اعلان بالفور” کے ذریعے برطانیہ نے فلسطین کو یہودیوں کا وطن تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور فلسطین کا قبضہ حاصل کرنے کے بعد ایک برطانوی یہودی کو ہائی کمشنر مقرر کیا جس نے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی راہ ہموار کی۔
٭امریکا کی یہودی تنظیموں نے اس مقصد کے لیے کروڑوں ڈالر مہیا کیے جس کے ذریعے یہودی دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر فلسطینیوں سے زمینیں خریدنے لگے۔
٭اس دوران عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے اپنے فتاوٰی کے ذریعہ فلسطینیوں کو اپنی زمینیں یہودیوں کے ہاتھ بیچنے سے روکنے کی کوشش کی، مگر فلسطینیوں نے اس کی پروا کیے بغیر یہودیوں پر اپنی زمینیں بیچنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں چند سالوں میں لاکھوں یہودی فلسطین میں آگئے اور انہوں نے اپنی باقاعدہ مسلح تنظیمیں قائم کر لیں۔ ان کے مقابلے میں فلسطینی بھی منظم ہوئے جس سے باہمی فسادات اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
٭ 1948ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اقتدار چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک حصہ یہودیوں کو دے کر ان کی خودمختار سلطنت کو تسلیم کر لیا گیا جبکہ دوسرا حصہ عرب ریاست قرار دیا گیا۔ اس موقع پر اُردن نے بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا جس سے بیت المقدس اردن کی تحویل میں چلا گیا اور 1967ء تک بیت المقدس پر اُردن کا اقتدار قائم رہا۔
٭ 1967ء میں اسرائیل نے مصر، شام اور اردن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے ان تینوں ملکوں کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا جس سے مسلمانوں کا قبلہ اوّل ایک بار پھر غیرمسلموں کی تحویل میں چلا گیا۔
٭ 1973ء میں ایک اور عرب اسرائیل جنگ میں مصر نے کچھ مقبوضہ علاقے اسرائیل سے واپس لے لیے لیکن بیت المقدس سمیت بہت سے دیگر مقبوضہ علاقے اسرائیل ہی کے پاس چلے آرہے ہیں۔
اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے حوالہ سے تین موقف عالمی رائے عامہ کے سامنے ہیں۔
ایک موقف اسرائیل کا ہے جسے امریکا کی مکمل اور عملی پشت پناہی حاصل ہے کہ اس نے اب تک جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہ اس کا حصہ ہیں، اور وہ بیت المقدس سمیت کوئی علاقہ خالی کرنے کو تیار نہیں۔ حتٰی کہ بیت المقدس کو اسرائیل نے دارالحکومت قرار دے رکھا ہے، بلکہ عظیم اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے جو نقشے شائع ہو رہے ہیں اور ان میں مصر، عراق، شام اور سعودی عرب کے مدینہ منورہ اور خیبر سمیت بہت سے علاقوں کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں تک اسرائیلی ریاست کو توسیع دینا عالمی صہیونی تحریک کے عزائم میں شامل ہے۔
دوسرا موقف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں ہے جن میں 1948ء کے دوران فلسطین کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے، اور اس کے بعد اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، اسرائیل سے ان علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گویا ان قراردادوں کے ذریعے فلسطین کے ایک حصہ میں قائم اسرائیلی ریاست کو جائز تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل سے تقاضہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرے اور 1967ء کی جنگ میں جن علاقوں پر اس نے قبضہ کیا تھا وہ انہیں خالی کر دے۔ ترکی، اردن اور مصر سمیت بہت سے مسلم ممالک کا موقف یہی ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔
تیسرا موقف سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے دیگر مسلم ممالک کا ہے کہ سرے سے اسرائیل کا قیام ہی ناجائز ہے، کیونکہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور علاقوں سے بے دخل کر کے ان پر انگریزوں نے یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ کرایا تھا اس لیے اسرائیل کو ایک قانونی اور جائز ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور عرب اسرائیل تنازعہ کا فیصلہ 1948ء کی پوزیشن پر نہیں بلکہ 1917ء کی پوزیشن پر کیا جانا چاہیے جب فلسطین ایک عرب اور مسلم ریاست کے طور پر متحد تھا۔ اس موقف کو سعودی سلطنت کے بانی ملک عبد العزیز آل سعود نے 1948ء میں امریکی صدر ٹرومین کے ایک دھمکی آمیز خط کے جواب میں دوٹوک طور پر واضح کیا تھا۔ صدر ٹرومین نے اپنے خط میں شاہ عبد العزیز والی سعودی عرب سے کہا تھا کہ وہ عربوں سے اسرائیل کو تسلیم کرانے اور فلسطین کی تقسیم کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو قبول کرانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، ورنہ سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم نہ کرنے والوں پر مختلف ممالک متحد ہو کر فوج کشی بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں سعودی عرب کے فرمانروا اور شہزادہ عبد اللہ کے والد محترم ملک عبد العزیز آل سعود نے ٹرومین کو لکھا تھا کہ:
”فلسطین کی جنگ کوئی پرانی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ بلکہ یہ اس کے اصل حقدار عرب قوم اور ان صہیونی جنگجوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد، جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم و نا انصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ممالک نے، نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا ہے جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہٰذا حالیہ لڑائی کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔”
امریکی صدر ٹرومین کے نام سعودی فرمانروا ملک عبد العزیز آل سعود کا یہ خط دس ربیع الثانی 1367ھ (فروری 1948ئ) کا تحریر کردہ ہے۔ دونوں خطوط کا اردو ترجمہ مالیر کوٹلہ (بھارت) کے جریدہ ماہنامہ دارالسلام نے نومبر 2001ء کی اشاعت میں شائع کیا تھا اور ہم نے بھی اسے ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے جنوری 2002ء کے شمارہ میں شائع کیا تھا۔ اس خط میں جو اصولی موقف اختیار کیا گیا ہے، یہی قضیہ فلسطین سے متعلق امت مسلمہ کا اجتماعی موقف ہے۔

