فلسطین کے بارے میں صدر ٹرمپ کا منصوبہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے بارے میں جو نیا منصوبہ سامنے آیا ہے وہ پوری صورت حال کو نئے رخ پر ڈھالنے کا منصوبہ ہے جس کے بارے میں مسلم حکمرانوں اور دانش وروں کے سنجیدہ غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں بیت المقدس کے حوالہ سے یہود و نصاریٰ کی قدیمی کشمکش نے نیا پینترا بدلا ہے اور مسیحی فریق نے، جو اس سے قبل پس منظر میں تھا اور مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان گزشتہ ایک صدی کی کشمکش میں یہودیوں کو سپورٹ کرتے ہوئے اپنے لیے مداخلت کی راہ تلاش کر رہا تھا، اب کھل کر سامنے آیا ہے اور معاملات کو خود اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹونی بلیئر آگے بڑھ رہے ہیں اور مسلم حکمرانوں کی اچھی خاصی کھیپ ان کی ہمنوا دکھائی دیتی ہے، اس طرح بیت المقدس پر مسلمانوں اور یہودیوں کی بجائے مسیحیوں کی بالادستی کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پورے معاملہ کو اب اس رخ سے دیکھنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے مسلم حکمرانوں کی موجودہ کھیپ سے کوئی واضح موقف سامنے آنے کی سرِدست توقع نہیں ہے مگر مسلم دانش وروں اور علمی و دینی مراکز کو گزشتہ دو اڑھائی ہزار سال کی مجموعی صورتحال کا ازسرنو جائزہ لے کر اپنا رخ متعین کرنا ہوگا۔ ہم اس سلسلہ میں اپنی گزارشات تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ تعالیٰ پیش کریں گے۔ سرِدست اکتوبر 2000ء کے دوران مصر کے روزنامہ ”الاہرام” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا اردو خلاصہ، اور 2002ء کے دوران سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مشروط پیشکش کے حوالے سے ایک تحریر قارئین کی خدمت میں ہم پیش کر رہے ہیں، اس گزارش کے ساتھ اسے گفتگو کے ابتدائیہ کے طور پر ایک بار پھر پڑھ لیں، اللہ تعالیٰ صحیح رخ پر ہماری رہنمائی فرمائیں۔

”روزنامہ ”الاہرام” قاہرہ نے دس اکتوبر 2000ء کی اشاعت میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک مخصوص صفحہ پر کچھ رپورٹیں اور مضامین شائع کیے ہیں جن کی روشنی میں مسجد اقصیٰ کی تاریخ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

بیت المقدس کی تاریخ تو بہت قدیم ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی ایک منزل ہونے کے علاوہ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد کم و بیش سترہ ماہ تک مسلمانوں کا قبلہ بھی رہا ہے جس کی وجہ سے اسے قبلۂ اول کہا جاتا ہے۔ لیکن مسجد صخرہ کی تاریخ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ صخرہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام سے معراج کی رات کی طرف سفر کا آغاز کیا تھا اور اسی یادگار کو باقی رکھنے کے لیے خلیفہ عبد الملک نے وہاں باقاعدہ مسجد تعمیر کرا دی تھی۔ روزنامہ الاہرام نے اس سلسلہ میں دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ ایک الاستاذ عارف باشا العارف کی ”تاریخ القدس” ہے جو چار ضخیم جلدوں میں ہے اور اسے مسجد اقصیٰ کی تاریخ پر سب سے مستند کتاب مانا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری کتاب ”المسجد فی الاسلام” الشیخ طہٰ الولی کی تحریر کردہ ہے اور اس میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں تاریخ وار واقعات پیش کیے گئے ہیں۔ مندرجہ ذیل معلومات انہی دو کتابوں سے بطور خلاصہ مرتب کی گئی ہیں:

٭74ھ میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور 86ھ میں خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں مکمل ہوئی۔ اس پر مصر کا سات سال کا خراج صرف ہوا۔ رجاء بن حیوة الکندی اور یزید بن سلام تعمیرات کے انچارج تھے۔ تعمیر مکمل ہوئی تو مسجد کی تعمیر کے لیے مخصوص رقم میں سے ایک لاکھ دینار بچ گئے جو خلیفہ نے دونوں نگرانوں کو بطور انعام دینا چاہے مگر دونوں نے یہ کہہ کر انعام لینے سے انکار کر دیا کہ ہمارا حق تو یہ بنتا ہے کہ ہم اپنی بیویوں کے زیور بیچ کر مسجد پر لگا دیں۔ چنانچہ خلیفہ نے سونے کے ان دیناروں کو ڈھلوا کر مسجد کے دروازوں پر اس سونے کی کی چادریں چڑھا دیں۔

٭130ھ میں زلزلہ آیا اور مختلف شہروں میں بہت نقصانات ہوئے تو اس وقت کے خلیفہ ابو جعفر نے مسجد صخرہ کے دروازوں سے یہ چادریں اتروا کر پھر ے سکوں میں ڈھلوا لیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیے۔
٭163ھ میں خلیفہ مہدی بن جعفر نے مسجد کی حدود میں ترمیم کر کے چوڑائی کم کر دی اور طول میں اضافہ کر دیا۔
٭426ھ میں خلیفہ الظاہر نے اپنے زمانہ میں زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کے باعث مسجد کی مرمت کرائی اور اس کے دور میں گنبد بنایا گیا جو اب تک چلا آرہا ہے۔ اور اس نے مسجد کے شمال کی جانب سات دروازے بنائے۔

٭492ھ میں صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور مسجد صخرہ کو کنیسا میں تبدیل کر کے اس کے ایک حصے کو گھوڑوں کا اصطبل اور کچھ حصہ کو گودام بنا لیا۔ کہتے ہیں کہ اس دور میں گنبد صخرہ کے ٹکڑے توڑ کر صلیبی اپنے علاقوں میں لے جاتے تھے اور سونے کے عوض انہیں فروخت کرتے تھے۔
٭492ھ سے 583ھ تک بیت المقدس صلیبیوں کی تحویل میں رہا جبکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583ھ میں اسے ان کے قبضہ سے آزاد کرایا۔ اس کی مرمت کرانے کے علاوہ صلیبی دور کے تمام اثرات کو ختم کیا اور اہل حلب کا خاص طور پر بنایا ہوا منبر مسجد میں نصب کرایا۔

٭595ھ میں ایوبی خاندان نے ہی پہلی بار مسجد کو گلاب کے پانی سے غسل دیا۔
٭634ھ میں ملک عیسیٰ نے اور 686ھ میں ملک المنصور سیف الدین نے مسجد کی عمارت میں اضافہ کیا اور ضروری مرمت کی۔ جبکہ 865ھ میں ناظر الحرمین الامیر عبد العزیز العراقی کے دور میں اس کی ازسرنو مرمت کی گئی۔
٭969ھ سے 1341ھ تک بیت المقدس اور مسجد صخرہ ترکی کے خلفائے عثمانی کی تحویل میں رہیں اور وقتاً وقتاً اس میں ترمیمات ہوتی رہیں۔
٭1922عیسوی میں مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی نے ترک انجینئر کمال الدین بک کی خدمات حاصل کر کے مسجد کی ازسرنو تعمیر و مرمت کرائی جس پر والی حجاز شریف مکہ حسین بن علی کے خصوصی عطیہ کے علاوہ فلسطین، مصر، شام، کویت، بحرین اور امریکا میں رہنے والے عربوں کے عطیات اور القدس کے لیے مخصوص وقف کی گئی آمدنی صرف کی گئی۔

٭1945ء میں یہودیوں نے مسجد میں بم پھینکے جس سے باب اوسط گر گیا اور قبہ کو سخت نقصان پہنچا۔
٭1967ء میں مسجد اقصیٰ پر قبضہ کے بعد یہودیوں نے پھر مسجد کو نقصان پہنچایا اور باب اوسط کو گرا دیا۔
٭1969ء میں مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کا خوفناک حادثہ ہوا، آگ قبہ کو اٹھانے والے ستونوں تک پہنچ گئی اور قبہ کے جل جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس موقع پر یہودیوں نے مسجد کے منبر کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

روزنامہ الاہرام کے ان مضامین میں بتایا گیا ہے کہ:
٭مسجد کے چار مئذنہ تھے: باب المغاریہ، باب السلسلة، باب الغوانمہ، باب الاسیاط۔ ”مئذنہ” اذان گاہوں کو کہتے ہیں جو پرانے دور میں مسجدوں میں ہوا کرتی تھیں۔ مؤذن ان میں کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے تھے اور بڑی مسجدوں میں چاروں کونوں پر الگ الگ اذان گاہیں ہوتی تھیں۔
٭مسجد کے دس دروازے ہیں: الاسیاط، الحطة، شرف الانبیائ، الغوانمہ، الناظر، الجلید، القطانین، المتوضا، السلسلة، المغاربہ، جبکہ چار دروازے مقفل رہتے ہیں: السکینة، الاقصیٰ، التوبة، البراق۔
٭مسجد کی پیمائش یہ دی گئی ہے: 650 میٹر / 260میٹر۔ مشرقی جانب سے 474میٹر، مغربی جانب سے 490میٹر، شمال سے 321میٹر اور قبلہ کی جانب سے 283میٹر۔

روزنامہ الاہرام میں مسجد اقصیٰ کے فضائل پر بھی ایک مستقل مضمون دیا گیا ہے اور مختلف مراسلوں میں مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے جن میں فلسطینیوں پر یہودیوں کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے شہری حقوق کی بحالی، مقبوضہ علاقوں کی بازیابی اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے عرب حکومتوں کو جرأت مندانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔