محرم کی آمد کے ساتھ ہی چینی مزید مہنگی، خودساختہ بحران ہے،ہول سیل تاجر

محرم کی آمد کے ساتھ ہی چینی کی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 50کلو چینی کا تھیلا مزید 100 روپے مہنگا ہو کر 8900روپے تک پہنچ گیا جبکہ پرچون مارکیٹ میں چینی 190روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔دوسری جانب عوام کو ریلیف دینے کے دعوؤں کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی دستیاب نہیں۔

صارفین مجبوری میں اوپن مارکیٹ سے مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت صرف اعلانات تک محدود نظر آتی ہے۔چھوٹے بڑے شہروں میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

کراچی ہو یا لاہور، اسلام آباد ہو یا پشاور، کوئٹہ ہو یا ملک کا کوئی بھی علاقہ، رمضان سے قبل 140روپے فی کلو فروخت ہونے والی چینی اب 190روپے سے 195روپے فی کلو تک میں فروخت کی جا رہی ہے اور جلد اس کے ڈبل سنچری کراس کرنے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔ہوشربا مہنگائی میں روزہ مرہ کی ضرورت چینی کی قیمتوں کو اس طرح پر لگنے سے شہریوں کا بجٹ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔

چینی کی قیمت بڑھنے پر حکومت نے چینی امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شوگر ایڈوائزبورڈ نے 5لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس کا جواز چینی کی قیمتوں میں استحکام رکھنا بتایا ہے۔تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ حکومت 5لاکھ ٹن چینی درآمد کر رہی ہے، اسی حکومت نے چند ماہ قبل چینی کی زیادہ پیداوار بتا کر اس کو بیرون ملک ایکسپورٹ کیا تھا۔چینی کی پہلے برآمد اور پھر درآمد یہ کھیل عرصہ سے جاری ہے۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے اور حکومت کی ہر بار اس غیر واضح پالیسی کا ذمہ دار کون ہے۔ امپورٹ سے شہریوں کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ان سب سوالات پرکراچی ہول سیل گراسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالروف ابراہیم نے ہوشربا انکشافات کیے اور بتایا کہ ملک میں چینی کا حقیقی بحران نہیں بلکہ خودساختہ بحران ہے۔ پاکستان میں چینی وافر مقدار میں موجود ہے اور حکومت چاہے تو یہ مارکیٹ میں آسکتی ہے۔

عبدالروف ابراہیم نے حکومت کی جانب سے ایک بار پھر چینی برآمد کرنے کے فیصلے کو پرانی واردات دہرانے سے تعبیر کیا اور کہا کہ ملک میں شوگر ملز کے 40مالکان ہیں اور سب ہی سیاسی وابستگی اور اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ مافیا نے اس پر کنٹرول کیا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چینی کی ایکسپورٹ اور امپورٹ کے کھیل میں ایف بھی آر کو 1350 کروڑ روپے کا نقصان ہوچکا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کو 40ہزار کروڑ روپے کا ٹیکا لگ چکا ہے۔

چینی کے اس مصنوعی بحران میں سٹہ مافیا اور شوگر کارٹل بھی ملوث ہے۔تاجر رہنما نے کہا کہ ملک میں چینی کی قلت کو درآمد کے لیے جواز بنایا جا رہاہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ملک میں چینی نہیں ہے تو میں اس کے اس دعوے کو جھوٹ تسلیم کرتا ہوں۔سابق ممبر قومی اسمبلی محمود مولوی کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی حکومت کو آج تک اندازہ نہیں ہوسکا کہ چینی امپورٹ اور ایکسپورٹ کب کرنی چاہیے۔

وافر مقدار میں چینی موجود ہے، حکومت چینی کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لیے فوری کریک ڈاؤن شروع کرے،حکمران خود چینی کے کاروبار سے وابستہ ہیں ،کئی شوگر ملز مالکان اسمبلیوں کا حصہ بھی ہیں چینی امپورٹ کرنے کے فیصلے سے کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، معاملے کی تحقیقات کے لیے نیب اور دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنانی چاہیے۔