ایران اسرائیل جنگ سردست رک گئی ہے، سیز فائر ہوچکی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ یہ صورتحال چلے گی کیونکہ اسرائیل جیسے کم ظرف اور گھٹیا دشمن سے کسی بھی قسم کی اخلاقیات یا وعدے کی پابندی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال اس وقت تو امریکی صدر کی بھی دلچسپی اسی میں ہے کہ جنگ رک جائے تاکہ امریکا کو اس میں پھنسنا نہ پڑے اور یہ بھی کہ مڈل ایسٹ کا جو نقشہ وہ چاہتے ہیں، اسے ترتیب دیا جاسکے۔ اس لئے یوں لگ رہا ہے کہ جنگ کا محاذ کم از کم کچھ عرصے کے لئے ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ ایران کا اس جنگ میں بے پناہ نقصان ہوا۔ اس کی پوری ملٹری لیڈرشپ پہلے دن ہی نشانہ بن گئی، نیوکلیئر تنصیبات پر شدید بمباری کی گئی، سترہ کے قریب ممتاز نیوکلیئر سائنس دان قتل کر دیے گئے، ایران کے انفراسٹرکچر کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ جو تھوڑا بہت ائیر ڈیفنس تھا وہ بھی تباہ ہوا، میزائل لانچنگ سٹیشنز وغیرہ بھی۔ میزائلوں کی تعداد بھی ظاہر ہے خاصی کم ہوگئی۔ یہ سب بڑے نقصانات ہیں اور خدشہ ہے کہ ایران کو اس دھچکے سے نکلنے میں دو چار سال لگ جائیں گے، وہ بھی تب کہ کوئی اور نئی جنگ اس پر مسلط نہ کر دی جائے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایران کی نیوکلیئر صلاحیت مکمل طور پر ختم ہوگئی یا اسے بچانے میں وہ کامیاب ہوگیا ہے؟ اس حوالے سے ایک نکتہ واضح ہے کہ خود امریکی انٹیلی جنس رپورٹیں اور ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی ایسسمنٹ کے مطابق ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی پوزیشن میں سردست نہیں تھا اور اسے ایسا کرنے میں خاصا وقت درکار ہے۔ یہ اور بات کہ صدر ٹرمپ نے خود امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹوں کو مسترد کردیا۔ امریکی انٹیلی جنس کی سربراہ تلسی لبارڈ نے اس سال مارچ میں یہ میمو لکھا کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار نہیں بنا رہا۔ صدر ٹرمپ نے اس کی پروا نہیں کی۔ جب پریس کانفرنس میں صحافیوں نے سوال پوچھا توٹرمپ نے اپنے مخصوص بے نیازانہ لہجے میں کہا تلسی لبارڈ کے نوٹ کی کوئی اہمیت نہیں، وہ نہیں جانتی، میں جانتا ہوں کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ بندہ پوچھے کہ انٹیلی جنس ایجنسی جن کا کام یہ معلومات جمع کرنا ہے، وہ نہیں جانتیں اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ایک متکبر اور مغرور شخص زیادہ جانتا ہے؟ خیر! اب تو اسرائیل اور پھر امریکا نے ایران کی اہم نیوکلیئر تنصیبات پر شدید ترین بمباری کر کے سٹرکچر کو بہت نقصان پہنچایا ہے، بعض تو شاید مکمل تباہ بھی ہو گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایران مستقبل قریب میں نیوکلیئر بم بنانے کی پوزیشن میں ہے؟
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایران کے پاس فی الوقت ایٹمی قوت موجود نہیں۔ وہ نیوکلیئر بم نہیں بنا سکا تھا۔ بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایران نے اس موقع پر ایٹمی تجربہ کر کے ایٹمی قوت بنانے کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ چونکہ اس کے پاس ایٹم بم ہی نہیں تو وہ ایٹمی تجربہ کیسے کرے؟اگر ایران ایٹمی قوت بن چکا ہوتا تو پھر تو یہ جنگ ہی نہیں ہونی تھی۔ وہ ایٹمی تجربہ کر کے اسرائیل اور امریکا کو باقاعدہ دھمکی دیتا کہ اگر مجھ پر حملہ کیا تو میں اسرائیل پر ایٹم بم گرا دوں گا۔ اس کے پاس ہائپر سونک میزائل تو ہیں، ایسا میزائل بھی ہوگا جو نیوکلیئر وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یقینی طور پر تب جنگ ہونے سے پہلے ہی رک جاتی۔ جیسا کہ نارتھ کوریا کے معاملے میں ہو رہا ہے۔ اس کی ایٹمی قوت اور بین البراعظمی میزائل کی موجودگی میں امریکا اس پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پابندیاں البتہ لگائے ہوئے ہے، جس کی نارتھ کوریا کو زرا برابر بھی پروا نہیں۔ ایران نے ییلو کیک بہت پہلے بنا لیا تھا۔ یاد رہے کہ ییلو کیک ایک نیم تیار شدہ یورینیم مرکب ہے۔ یہ یورینیم کی کان کنی کے بعد ابتدائی صفائی اور کیمیکل پراسیسنگ کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور عام طور پر پیلے پاوڈر کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے (Yellowcake) کہا جاتا ہے۔ ییلو کیک ہی سے دراصل افزودہ یورینیم بننے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ییلو کیک کو یورینیم ہیکسا فلورائیڈ گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر سینٹری فیوجز یا ڈفیوزن سے افزودگی(Enrichment) ہوتی ہے۔ پھر تیارافزودہ یورینیم (LEU / HEU) حاصل ہوتا ہے۔ ییلو کیک ایک ضروری پہلا قدم ہے، مگر خود ایٹمی ایندھن یا ہتھیار کے لیے براہِ راست قابلِ استعمال نہیں ہوتا۔
اگلا سوال یہ ہے کہ اگر کسی ملک کے پاس افزودہ یورینیم ہو تو وہ کتنا جلدی ایٹم بم بنا سکتا ہے؟ اس کے جواب کے لئے یہ سمجھ لیں کہ یورینیم کی افزودگی صرف ایٹم بم بنانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے، مگر ان ایٹمی بجلی گھروں کے لیے لو انرچمنٹ والی یوراینیم درکار ہوتی ہے، تین سے پانچ فیصد افزودہ یورینیم۔ بیس فیصد افزودہ یورینیم کو ہائی انرچمنٹ یورینیم کہا جاتا ہے، اسے ریسرچ مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کی ٹریٹمنٹ کے لیے بھی یہ استعمال ہوتا ہے جبکہ ایٹم بم کے لیے نوے فیصد انرچمنٹ یعنی افزودگی والی یورینیم درکار ہے۔
اب یہاں پر بریک آؤٹ ٹائم کی اصطلاح بھی سمجھ لیں۔ بریک آؤٹ ٹائم(Breakout time) اس مدت کو کہتے ہیں جس میں کوئی ملک افزودہ یورینیم کو ہتھیار کے قابل مواد میں تبدیل کر لے اور پہلا ایٹمی ہتھیار تیار کر لے۔ یہ مدت عام طور پر 3مراحل پر مشتمل ہوتی ہے: نوے فیصد افزودگی والی یورینیم حاصل کرنا۔ اس کے بعد نیوکلیئر کور اور امپلوژن سسٹم، کنٹینر وغیرہ کے ڈیزائن اور تشکیل میں چھ سے آٹھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ اس کے بعد ایٹمی ہتھیار کی مینو فیکچرنگ میں بھی چند ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر تمام سائنسی اور فنی صلاحیتیں موجود ہوں، پابندیاں نہ ہوں تو نوے فیصد افزودہ یورینیم حاصل کرنے کے بعد کوئی ملک ڈیڑھ دو سال کے اندر پہلا ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔
اب یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کے پاس 90فیصد افزودہ یورینیم ہے؟ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی یعنی IAEA کی حالیہ رپورٹ (جون 2025ئ) کے مطابق ایران کے پاس 60فیصد افزودہ یورینیم کی معقول مقدار موجود تھی، جسے مزید افزودہ کر کے 90فیصد تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اس میں بہرحال وقت لگتا ہے اور جدید ترین آلات کی دستیابی بھی شرط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کے پاس سینٹری فیوجز کی جدید اقسام (IR-6 وغیرہ) موجود ہیں۔ ایران کے بارے میں یہ اطلاع بھی ہے کہ وہ ہائی ایکسپلوسیو ٹریگرز اور میٹلرجیکل مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر نوے فیصد افزودہ یورینیم موجود ہو اور ایران ایٹم بم بنانے کی کوشش کرے تو سال ڈیڑھ میں بنا سکتا تھا۔ (یاد رہے کہ یہ اس جنگ سے پہلے کی صورتحال تھی۔)
آج اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایران کے پاس انرچمنٹ والی یورینیم کے ذخائر موجود ہیں یا بمباری میں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے؟ عالمی اداروں کے مطابق بمباری کے بعد کسی قسم کی تابکاری کے اثرات نہیں ملے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فردو نیوکلیئر سٹیشن سے یورینیم کو حملے سے پہلے نکال لیا گیا جیسا کہ سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلا کہ امریکی بمباری سے چند گھنٹے پہلے وہاں بہت سی گاڑیاں متحرک تھیں۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس افزودہ یورینیم کے ذخائر محفوظ ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر سینٹری فیوجز کو نکال کر لے جانا بہت مشکل تھا تو فردو پر بمباری میں سینڑی فیوجز اور دیگر مشینری ضرور تباہ ہوئی ہوگی۔ اس لیے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ایران نے کچھ نہ کچھ افزودہ یورینیم محفوظ کر لی، مگر ایک تو اس کی افزودگی نوے فیصد تک نہیں اور اب پھر سے نیوکلیئر تنصیبات بنانے اور وہاں پر سینٹری فیوجز سے افزودگی کی سطح نوے فیصد تک لے جانا میں کچھ عرصہ لازمی لگے گا اور اگر دوبارہ حملہ یا بمباری نہ ہوئی تب۔ جیسا کہ امریکا اور اسرائیل دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ایران نے دوبارہ نیوکلیئر بم بنانے کی کوشش کی تو ہم پھر حملہ کریں گے۔
لگتا یوں ہے کہ ایرانی ماہرین پاکستانی سائنس دانون، ٹیکنیشنز اور ماہرین کی نسبت زیادہ سست ثابت ہوئے یا پھر پابندیوں کی وجہ سے ان کی مشکلات بڑھیں۔ بہرحال ایران نے بہت زیادہ وقت لگا دیا۔ جو مہلت انہیں ملی، وہ اس سے بروقت فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اب ان کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہوچکی ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور یورپ مڈل ایسٹ میں کسی مسلمان نیوکلیئر قوت کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے، اس لیے ایران کو متبادل پلان بنانے کی ضرورت ہے، آؤٹ آف باکس تھنکنگ کے بعد بنایا جانے والا پلان۔ بظاہر اس کے بغیر ایران نیوکلیئر طاقت نہیں بن سکتا۔