وہ دوست جو بی بی سی اردو اِن دنوں دیکھ رہے ہیں، وہ صاف محسوس کر رہے ہوں گے کہ وہ دراصل ”گودی میڈیا” ہی کا ایک قدرے بہتر اور مہذب ورژن بنا ہوا ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے رپورٹس کی وہ اینگلنگ کرتے ہیں اور انڈیا کے بے تکے بیانیے کو انتہائی جانبداری کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کی ابتدا، جنگ شروع ہونے سے پہلے اور دوران کے ایام، نیز پاکستان کی فتح کے بعد یہ بات بہت شدت سے عیاں ہوئی ہے کہ دنیا میں رائے عامہ کی تشکیل کے مراکز اب بندوقوں اور توپوں سے زیادہ مائیکروفون اور کیمرے بن چکے ہیں۔ بیانیہ اب ایک اسلحہ ہے اور جو اسے بہتر چلاتا ہے، وہ جنگِ رائے عامہ کا فاتح کہلاتا ہے۔ مغرب میں بیٹھے بڑے میڈیا ادارے، مثلاً بی بی سی، سی این این یا نیویارک ٹائمز، صرف خبر نہیں دیتے، بلکہ پورا ایک ”زاویہ” دیتے ہیں اور یہی زاویہ کسی ریاست یا طاقت کے مفاد میں ڈھل جاتا ہے۔
بی بی سی اردو، جس کی باضابطہ مخاطب قوم پاکستانی اور اردو بولنے والے ہیں (بی بی سی ہندی الگ ہے) اس کی رپورٹنگ میں بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ وہ کسی واقعے میں پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے بیانیے کو جان بوجھ کر کمزور انداز میں پیش کرتا ہے، جبکہ بھارت کی طرف سے آنے والے اکثر غیر منطقی، مبالغہ آمیز یا حتیٰ کہ جھوٹ پر مبنی بیانات کو ایک صحافتی توازن کے بہروپ میں ”غیر جانب داری” کے لبادے میں سمو دیتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی اس کی روشن مثال ہے، جس میں پاکستان کی جانب سے جیسا سرپرائزپوری دنیا کو دیا گیا اور کچھ ایسا دوپہر کے سورج کی طرح روشن کہ ابتدائی حیرت کے جھٹکے میں (کچھ مغرب کے اپنے اسٹریٹجک مفادات بھی تھے) بین الاقوامی صحافت، عسکری ماہرین اور آزاد تجزیہ کاروں کی طرف سے پاکستان کی ”واضح اور مکمل فتح” تسلیم کی گئی، لیکن ایک بی بی سی ہی تھا جس نے نہ صرف ان پہلوؤں کو پس منظر میں رکھا بلکہ انڈین فوج اور میڈیا کی طرف سے پھیلائے گئے مضحکہ خیز دعوؤں کو بغیر تحقیق یا تنقیدی تجزیے کے اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی۔
اس کی ایک ممکنہ وجہ ہمیں یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بی بی سی جیسے عالمی اداروں کی ادارہ جاتی ساخت میں جنوبی ایشیائی نمائندگی کا تناسب غیر متوازن ہے۔ رپورٹنگ ٹیم سے لے کر ادارتی سطح تک، متعدد کلیدی عہدوں پر بھارتی نژاد صحافیوں کی موجودی نے ادارتی پالیسیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں بی بی سی کو نہ صرف قارئین کی ایک بڑی تعداد میسر ہے بلکہ اشتہارات اور پارٹنرشپ کے امکانات بھی پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ تاریخی مثال کے طور پر کارگل کی جنگ دیکھیے کہ اس وقت یعنی 1999ء میں بھی بی بی سی نے بھارتی بیانیے کو زیادہ جگہ دی تھی، حالانکہ بعد ازاں خود بھارتی دفاعی تجزیہ کار ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک نے بھارتی چینل این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ ”پاکستانی فوج نے جس طرح کی بلندیوں پر قبضہ کیا، وہ ایک عسکری چمتکار تھا۔ ” مگر بی بی سی نے اس حقیقت کو تجزیاتی فریم میں پیش کرنے سے اجتناب کیا۔ کپل کاک ہی نہیں، اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ اور قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا کی پریس بریفنگز میں بھی پاکستان کی پیش قدمی کی شدت کا غیر علانیہ اعتراف موجود تھا، لیکن ان بیانات کو مغربی میڈیا نے سنسر شدہ انداز میں پیش کیا۔
المیہ یہ ہے کہ اس صحافتی رویے کا اثر صرف بین الاقوامی فضا تک محدود نہیں رہا، بلکہ خود پاکستانی رائے عامہ بھی اس سے متاثر ہوئی۔ بی بی سی اردو سمیت بعض دیگر عالمی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کی عسکری کامیابی کو اس طرح پیش کیا کہ جیسے یہ کوئی سفارتی ناکامی یا بے تدبیری کا نتیجہ ہو، حالانکہ اس بارے میں دوسری طرف کی آرابھی موجود ہیں۔ یوں پاکستان کے اندر بھی ایک عمومی تاثر پیدا ہو گیا، ہم خود بھی کچھ عرصہ قبل تک یہی سمجھتے تھے کہ کارگل ایک ایسی ہاری ہوئی جنگ تھی جس کی وجہ سے نواز شریف کو امریکا کے پیر پکڑ کر اس مشرفی ایڈونچر کی معافی مانگنا پڑی اوریوں پاکستان نے امریکا سے مداخلت کروا کرکارگل میں اپنی عزت بچائی، حالانکہ ہم نے حال ہی میں تفصیل سے پڑھا کہ یہ ایڈونچر غیر ضروری اور بغیر مناسب تیاری کے ضرور تھا، مگر عسکری اعتبار سے بہرحال ایک کامیاب پیش قدمی تھی، جسے بعد ازاں انڈیا کی درخواست پر بین الاقوامی دباؤ کے تحت واپس لینا پڑااور بس۔
ایسی ہی ایک مثال 2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ ہے، جس میں حزب نے اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان میں شدید نقصان پہنچایا اور اسرائیلی کمانڈرز نے اندرونی رپورٹس میں اس کو ”حساب کتاب کی سب سے بھاری قیمت” کہا، مگر مغربی میڈیا خاص طور پر امریکی چینلز نے اسرائیل کو ایک فاتح ریاست کے طور پر پیش کیا، گویا اس نے یہ جنگ جیت ہی لی ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے اثر و رسوخ میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے دنیا کی طاقتور اقوام نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ نہ صرف بیوروکریسی، بلکہ میڈیا کے مرکزی اداروں میں بھی اپنی فکری نمائندگی کو مضبوط کریں۔ اسرائیل کی پی آر مشینری ہو یا چین کا سی جی ٹی این، سب جانتے ہیں کہ معلومات کی دنیا میں ایک قدم آگے رہنے کے لیے ایسے اداروں میں اعلیٰ رسائی ناگزیر ہے۔
سو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بی بی سی اردو کا لہجہ پاکستان کے لیے سوتیلی ماں جیسا بلکہ ”گودی میڈیا” کا ایک قدرے بہتر اور مہذب ورژن ہی ہے تو یہ دراصل بھارت کی شخصی اور مالی ایک بڑی انویسٹمنٹ ہے۔ یاد رکھیے گا کہ آج کے دور میں جنگ محض میدانِ کارزار میں نہیں لڑی جاتی بلکہ نیوز رومز میں بھی لڑی جاتی ہے اور جو اپنی جیتی ہوئی جنگ کو ہار کی طرح پیش ہونے دے، وہ بہرحال بیانیے کی جنگ ہار جاتا ہے۔ ان دنوں جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں، عالمی میڈیا میں پاکستانی فتح اور اس کے کامیاب اہداف کو مشکوک کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے یقینا کروڑوں، اربوں روپے کی مودی انویسٹمنٹ ہوگی تاکہ مودی کی گرتی ہوئی ساکھ کو انڈیا میں سہارا ملے۔
ضرورت بہرحال اس امر کی ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنی صحافت کو بین الاقوامی معیار پر استوار کرے، بلکہ عالمی میڈیا ہاؤسز میں بھی اپنے قابل اور باضمیر نمائندے تعینات کرنے کے لیے باقاعدہ پالیسی اپنائی جائے، کیونکہ رائے عامہ کی دنیا میں ”نظر آنے والا سچ” ہی اصل سچ ہوتا ہے۔