کیا پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوگی؟

یہ وہ سوال ہے جس پر پاکستانی عسکری ماہرین اور تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی اہم ممالک کے سفارت خانے اور ڈیفنس اتاشی غور کر رہے ہیں۔ وہ اس کا جواب کھوجنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر جنگ چھڑ گئی تب کیا صورتحال پیدا ہوگی؟ہمارے بعض صحافی اور تجزیہ کار دوستوں کا خیال ہے کہ پاکستان بھارت جنگ نہیں ہوگی اور یہ محض گیدڑ بھبکیاں ہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ مودی حکومت اور بھارتی سینا میں اتنی جرأت اور ہمت نہیں کہ وہ ایسا بڑا اقدام کر سکیں۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں تمام پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔

بھارت کے سامنے چار پانچ آپشنز ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ کچھ بھی نہ کرے اور صرف سفارتی پابندیاں، سندھ طاس معاہدے کے ذریعے تنگ کرنے اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہنے میں مصروف رہے اور پاکستان کے اندر بلوچستان اور پختون خوا کے قبائلی علاقوں میں اپنی پراکسی وار تیز کر دے۔ اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ یہ آپشنز بھارت پہلے ہی بروئے کار لا رہا ہے اور یقینا آیندہ بھی ایسا کرتا رہے گا۔ بزدل اور عیار دشمن سے اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ تاہم جس قدر میڈیا ہائپ بھارت کے اندر پیدا کی جا چکی ہے اس کے پیش نظر یہ لانگ ٹرم آپشن اس وقت شدت پسند ہندولابی اور جنونی میڈیا اینکرز کے لیے کافی نہیں ہوگی۔

دوسرا آپشن ہے، اڑی حملہ کے بعد والی سیچوئشن کی طرح کسی نام نہاد کمانڈو آپریشن کرنے کا جعلی دعوی کرنا۔ ہوا یہ تھا کہ اٹھارہ ستمبر 2016ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقہ اڑی میں کشمیری عسکریت پسندوں کی ایک کارروائی کے بعد بھارت نے اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر بڑا شور مچایا۔ عالمی سپورٹ اسے تب بھی حاصل نہیں ہوسکی تھی، تاہم سرحدوں پر خاصی کشیدگی پیدا ہوگئی۔ بعد میں حملے کے دس گیارہ دن بعد بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس کے کمانڈوز نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے آزاد کشمیر کے علاقہ میں مبینہ طور پر کشمیری مجاہدین کے ایک لانچنگ پیڈ اور ٹھکانے پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا اور متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔

اب یہ ایسا دعویٰ تھا جس کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ مقامی اخبار نویسوں نے بھی چھان بین کی، مگر ایسا کوئی سیف ہائوس، ٹھکانہ نہیں ملا جہاں متعدد افراد کی لاشیں موجود ہوں۔ پاکستان نے اس حملے کی تردید کر دی، تاہم بھارتی حکومت نے مقامی سطح پر جشن منایا، اپنے میڈیا پر بہت سی رنگا رنگ مگر جھوٹی خبریں چلوائیں، حتی کہ اس پر بعد میں بھارتی فوج کی فنڈنگ سے ایک فلم بھی بنی۔ یہ ایک ایسا آپشن تھا جس میں بھارت نے مقامی سطح پر توقعات اور جنگی جنون کو ٹھنڈا بھی کر دیا اور پاک بھارت جنگ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ ممکن ہے اس بار بھی ایسا کوئی ڈرامہ کیا جائے، مگر اب اس طرح کی حرکتوں سے خود بھارت کے اندر بھی لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی ڈرامہ میکرز کو اب کچھ محنت کرنے اور زیادہ بڑی کہانی بنانا پڑے گی، اس کے بغیر ان کا ڈرامہ سپر فلاپ جائے گا۔

تیسرا آپشن پلوامہ اٹیک کے بعد والا ہے۔ یعنی ائیر سرجیکل سٹرائیک، جب بھارتی جنگی جہاز پاکستان میں گھسے اور بالاکوٹ کے مقام پر پے لوڈ گرا کر فرار ہوگئے، سوائے ایک دو درختوں کے جلنے کا کچھ نقصان نہیں ہوا، تاہم اگلے ہی روز پاکستانی ائیرفورس نے انہیں کمال ہوشیاری کے ساتھ انگیج کیا اور ان کے دو طیارے تباہ کر دیے۔ ایک پاکستانی سائیڈ پر گرا جس کا پائلٹ ابھینندن پکڑا گیا اور پھر ‘فنٹاسٹک چائے’ والا وہ پورا ایپی سوڈ ہر پاکستانی کو یاد ہے جس میں بھارت کو بہت ہزیمت اور رسوائی اٹھانا پڑی۔ اسی ذلت آمیز شکست کے بعد ہی بھارت نے فرانس سے اربوں ڈالر مالیت کے رافیل فائٹر طیارے خریدے جبکہ روس سے بھی وہ ‘سخوئی تیس’ خرید چکا ہے۔ روس سے ایس چار سو میزائل ڈیفنس شیلڈ بھی بھارت نے لے رکھی ہے۔ بھارت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے بھی اپنے ڈیفنس کو پہلے سے زیادہ مضبوط کیا ہے۔ ہمارے پاس اپنے جے ایف سیونٹین تھنڈر موجود ہیں جسے اس کے مداح جیفی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے چین سے جے ٹین ڈریگن لیا ہے، یہ بڑا زبردست فائٹر جیٹ ہے اور اس میں وہ تمام صلاحیتیں اور گن موجود ہیں جو بھارتی رافل اور سخوئی تیس کا مقابلہ کر سکیں۔ پاکستان کے پاس ایف سولہ بھی موجود ہیں جو اگرچہ پرانے ہوگئے ہیں، مگر بہرحال ان کی فائٹنگ صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں کر سکتا۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی پائلٹ بھارتی پائلٹس سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار مانے جاتے ہیں۔

ایک آپشن بھارت کے پاس یہ بھی ہے کہ وہ کوئی میزائل حملہ کرے، جیسے اسرائیل نے ایران پر میزائل حملہ کیا تھا یا جیسے پچھلے سال ایران نے بلوچستان پر میزائل داغ دیے تھے کہ بقول اس کے یہ اینٹی ایران جنگجوئوں کے اڈے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس آپشن کا نقصان بھارت کو یہی ہے کہ جواب میں اسے پاکستانی میزائل اٹیک کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ پاکستانی میزائل بھارتی میزائلوں سے زیادہ بہتر ہیں۔ ہمارے پاس کئی اقسام کے کروز میزائلز کے علاوہ بیلسٹک میزائل بھی موجود ہیں جنہیں روس کا ‘ایس۔ 400’ ڈیفنس نظام بھی نہیں روک سکے گا۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ پاکستان نے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ بھی کر رکھا ہے جس کی رفتار آواز کی رفتار سے تین گنا تک تیز ہے اور وہ اپنی سمت بدل سکتا ہے۔ ایسے میزائلز کی رفتار اور ہدف بدل لینے کی صلاحیت کے باعث اسے پکڑنا مشکل ہے۔ پاکستان کے پاس اپنے ڈرونز کے علاوہ ترکی سے حاصل کردہ جدید ترین ڈرون بھی موجود ہیں، یہی وہ ڈرونز ہیں جنہوں نے روس یوکرائن جنگ میں بڑی تباہی مچائی۔

بھارت کے پاس ایک اور آپشن زمینی حملہ کرنے کی ہے۔ بھارتی ماہرین اپنے میڈیا پر بلند وبانگ دعوے کر رہے ہیں کہ ہم ٹینکوں کی فوج کے ساتھ سیالکوٹ بارڈر پر حملہ کریں گے، پنجاب کو کاٹ دینے کی کوشش کریں گے، سندھ پر بھی اس بار اٹیک کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ بھارت کے لیے اصل سوہان روح پاکستانی جدید ہتھیار اور منظم جذبے سے سرشار پاکستانی فوج ہے۔ پاکستان کے پاس جدید اینٹی ٹینک میزائل اور بکتر شکن ہتھیار موجود ہیں۔ ترک ڈرونز بھی ان ٹینکوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ بھارت کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر فل سکیل جنگ چھیڑی گئی تو پھر یہ قابو سے باہر چلی جائے گی اور آخرکار معاملہ نیوکلیئر جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔

یہ سب آپشنز بھارت کے سامنے ہیں۔ پاکستانی ماہرین بھی ان خطوط کو اچھی طرح جانچ کر، سمجھ کر اس کے خلاف کاؤنٹر اسٹریٹجی بنا چکے ہیں بلکہ انہوں نے تو مزید آپشنز کی بھی اسٹڈی اور کائونٹر کی حکمت عملی سوچ لی ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ بطور قوم ہمارا حوصلہ بلند ہے۔ لوگ پُرسکون اور مطمئن ہیں، کہیں پر کسی بھی قسم کا پینک نظر نہیں آرہا۔ لوگ بنکوں سے پیسے نکلوا رہے اور نہ ہی راشن وغیرہ جمع کر رہے ہیں۔ سب کچھ روٹین کے مطابق چل رہا ہے۔ بھارتی جارحیت نے ہماری سیاسی طور پر منقسم قوم کو متحد اور اکھٹا کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں نے بھارت کا وہ حال کیا کہ انہیں ہمارے سوشل میڈیا چینلز بند کرنے پڑے۔ یہ ان کی بڑی شکست ہے۔ بالی وڈ جیسی بڑی فلم انڈسٹری، بے شمار چینلز، لاکھوں سوشل میڈیا اکاونٹس اور بے پناہ وسائل کے باوجود بھارتی ماہرین پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس، ولاگرز وغیرہ کا جواب نہیں دے پائے اور انہیں ہمارے چینلز وغیرہ بند ہی کرانے پڑے۔ ہمیں ہر قسم کی صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ جنگ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے، جنگ میں پہل بھی بے شک نہ کریں، لیکن اگر کوئی بدبخت اور مکار زہریلا دشمن جنگ مسلط کر دے تو پھر اس کا ڈٹ کر جرأت سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اِن شاء اللہ پاکستانی قوم ہر مشکل اور بحران میں سرخرو ہوئی ہے، اس بار بھی ہوگی۔