غزہ میں بجلی بندش،عرب ممالک اسرائیل پر برس پڑے(فضائی حملوں میں6 فلسطینی روزہ دار شہید)

غزہ/واشنگٹن/ریاض/دوحہ/برلن:غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی نئی خلاف ورزی کرتے ہوئے رفح اور غزہ پر دو الگ الگ اسرائیلی فضائی حملوں میں ایک خاتون سمیت 6 شہری شہید ہو گئے۔شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال کا کہنا تھا کہ غزہ شہر کے جنوب میں واقع نیٹزارم کے علاقے میں شہریوں پر اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں دو بھائیوں سمیت 4 شہری شہید ہو گئے۔

رفح شہر کے فلاڈیلفی محور میں تعینات قابض اسرائیلی فوج کی اندھا دھند فائرنگ سے ایک خاتون شہری شہید ہو گئی۔طبی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح کے مشرق میں واقع قصبے الشویکہ میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک خاتون شہری شہید ہوگئی۔

قابض فوج نے غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس شہر کے مشرق میں واقع قصبے خزاعہ کے مشرق میں شہریوں کے گھروں پر بھی فائرنگ کی۔اسرائیلی ٹینکوں نے خان یونس کے مشرق میں واقع قصبے عبسان الجدیدہ کے مشرقی علاقے پر توپ سے ایک گولہ فائر کیاگیا۔

ادھرفلسطینی وزارت صحت نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں 36 شہداء کی لاشیں اور 14 زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیے جانے کا اعلان کیاہے۔وزارت صحت نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ شہداء میں 32 کی لاشیں ملبے تلے سے نکالی گئیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی جارحیت میں شہادتوں کی تعداد 48,503 اور زخمیوں کی 111,927 ہو چکی ہے۔وزارت صحت نے کہا کہ ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر اب بھی شہداء کی لاشیں موجود ہیں اور ایمبولینس اور شہری دفاع کا عملہ ان تک نہیں پہنچ سکتا۔

وزارت صحت نے غزہ کی جنگ میں شہید اور لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ منسلک لنک کے ذریعے رجسٹریشن کر کے اپنا ڈیٹا مکمل کریں، تمام ڈیٹا وزارت صحت کے ریکارڈ کے ذریعے نئے لنک کے ذریعے مکمل کریں۔

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ کے لیے خوراک کی فراہمی روک کر غزہ میں انسانی صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ واضح رہے اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ بیکریوں کو بند کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ۔

اسرائیل نے غزہ میں انیدھن کی ترسیل اور بجلی کی سپلائی بھی روک دی ہے اور جنگ بندی کے لیے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کی کوشش بھی جاری ہے۔فلسطینیوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا نے کہا ہے کہ ان اسرائیلی اقدامات نے انسانی زندگیوں کے لیے سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔

غزہ کی پہلے ہی لگ بھگ 23 لاکھ آبادی سترہ ماہ کی جنگ کے دوران سنگین حالات سے دوچار ہیں۔فلسطینی تنظیم حماس نے ان اسرائیلی اقدامات کو فلسطینیوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دیا ہے لیکن اس طرح کی اسرائیلی حرکتوں سے جنگ بندی مذاکرات میں کوئی رعایتیں نہیں مل سکیں گی۔

غزہ میں بیکریوں کی یونین کے سربراہ عبدالناصر الاجرامی نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل کی ان رکاوٹوں کے بعد کل 22 بیکریوں میں سے 6 بیکریاں صرف کھلی رہ گئی تھیں اب یہ بیکریاں بھی گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو چکی ہیں۔

منگل کی صبح قابض اسرائیلی فوج نے الخلیل کے متعدد محلوں پر دھاوا بولا اور چھاپے مارے ، گھروں میں تلاشی لی اور سامان کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ اس دوران انہوں نے ایک رکن پارلیمنٹ سمیت متعدد شہریوں کو گرفتار کیا۔

مقامی ذرائع نے بتایا کہ قابض فوج نے رکن پارلیمان محمد جمال النطشہ، شیخ عبدالخالق النطشہ کو گرفتار کر لیا اور سابق قیدی مازن النطشہ کو رہا کر دیا۔قابض فوج نے نوجوان یوسف سامی الشریف اور بھائیوں محمد اور نشاط زیدان جرادات، نزار جرادات اور ابود الطیطی کو بھی گھروں پر چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔اب کئی دنوں الخلیل شہر گرفتاریوں کی ایک مسلسل مہم کا نشانہ بنا ہوا ہے جس سے درجنوں شہری متاثر ہوئے ہیں۔اس کی توجہ حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنانے پر مرکوز ہے۔

قابض فوج نے الخلیل کے شمال میں واقع حلحول شہر پر چھاپے کے دوران رہائشیوں کی گاڑیوں کو روکا اور ان کے مسافروں پر حملہ کیا۔گذشتہ نومبر کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی سے 62 بچوں اور 10 خواتین سمیت 480 فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔

دریں اثناء امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینی طالب علم محمود خلیل کی گرفتاری کے خلاف ہزاروں کارکنوں نے نیویارک میں ایک بڑے مظاہرے میں حصہ لیا جسے امیگریشن افسران نے ”یہود مخالف” سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مبینہ الزام میں ملک بدر کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر حراست میں لیا تھا۔

طالب علم محمود خلیل کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے والے کارکنوں کی طرف سے الیکٹرانک پٹیشنز پر مسلسل دستخط کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے کیونکہ 20 لاکھ سے زائد کارکنوں نے اس کی گرفتاری کو مسترد کرنے والی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں۔

نیویارک میں مقامی حکام کی جانب سے اسے ”مستقل رہائش” کے ذریعے قانونی موجودگی کے باوجود امریکا سے ملک بدر کرنے کی کوششوں پر دستخط کیے ہیں۔نیویارک میں ایک وفاقی جج نے کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے والے فلسطینی کارکن محمود خلیل کی ملک بدری کو روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمین نے خلیل کی ملک بدری پر روک لگانے کا حکم دیا اور بدھ کو اس کے کیس کی سماعت مقرر کی۔علاوہ ازیںاسلامی تحریک مزاحمت حماس نے غرب اردن کے شمالی شہر جنین میں قابض اسرائیلی فوج کو مطلوب فلسطینی نوجوان عبدالرحمان ابو المنا کی فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کی کارروائی کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس مجرمانہ قتل کو عباس ملیشیا کی وحشیانہ جارحیت قرار دیا ہے۔

حماس کی طرف سے جاری ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف قابض صہیونی ریاست امریکی اور مغربی مدد سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف نام نہاد فلسطینی اتھارٹی نہتے شہریوں کا خون بہانے کے جرم پر مصر ہے۔ ابو المنیٰ کی عباس ملیشیا کے ہاتھوں شہادت ایک سنگین واقعہ اور عباس ملیشیا کی دہشت گردی کا مظہر ہے۔

حماس نے ایک بیان میں کہاکہ فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے ہمارے لوگوں اور مزاحمت کاروں کو مسلسل نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے جس گھناؤنے جرم کا ہم نے کل شام مشاہدہ کیا اس کے نتیجے میں مطلوب شخص عبدالرحمن کی شہادت ہوئی جب اتھارٹی کی سیکورٹی فورسز نے جنین میں اس پر براہ راست گولی چلائی، یہ ایک خطرناک خونریزی کی علامت ہے۔

سعودی عرب اور قطر نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی قابض حکام کی جانب سے فلسطینی عوام پر اجتماعی سزا کا نفاذ قابل مذمت ہے اور اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔

قطری وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ غزہ کی بجلی کاٹنے کا اقدام بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کا یہ اقدام ناقابل قبول ہے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کرے۔

جرمنی نے کہا ہے کہ غزہ کیلئے امداد کی ترسیل روکنے کا اقدام اورغزہ کو بجلی کی سپلائی منقطع کرنے کا اسرائیلی فیصلہ فلسطینی سرزمین میں ایک نئے انسانی بحران کو جنم دے گا ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان کیتھرین ڈیشار نے پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ اس امدادی ترسیل کو روکنے سے خوراک کی قلت کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کی جانب سے غزہ کیلئے بجلی کی بندش اور پانی کی سپلائی کو روکنے کے اقدام کو بڑی تشویش کے ساتھ دیکھتے ہیں اس لئے اس طرح کے تمام اقدامات ناقابل قبول ہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیلی ذمہ داریوں سے بھی متصادم ہیں۔

انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد پر لگائی گئی پابندیاں واپس لے۔ادھراردن نے بھی غزہ کو بجلی کی سپلائی بند کرنے کے اسرائیلی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

اردن کی وزارت خارجہ کے ترجمان سفیان قداح نے بجلی کی کٹوتی کو اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ بھوک اور محاصرے کی پالیسی کا واضح تسلسل قراردیا۔ انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیاکہ وہ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں سنبھالے اور اسرائیل کو جنگ بندی کے معاہدے کو جاری رکھنے کا پابند کرے، غزہ میں بجلی بحال کرائے اور امداد کی ترسیل کیلئے سرحدی گزرگاہیں دوبارہ کھولے۔