چائے سے لے کر مشروبات اور مٹھائیوں کی تیاری تک پاکستان میں چینی کا استعمال ہر گھر کی ضرورت ہے۔ تاہم تیس جون 2025ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں 750000ٹن چینی کی برآمد کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کے ذریعے شوگر ملز نے چینی برآمد کرکے غیر ملکی زرمبادلہ کی صورت میں آمدنی حاصل کی تو اس کی قیمت بڑھ گئی۔ 1948ء سے شوگر انڈسٹری کی شروعات سے لے کر اب تک کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ 1948ء میں دو شوگر ملز سے شروع ہونے والی انڈسٹری 1960ء میں چھ شوگر ملز پر مشتمل تھی۔ 1961ء سے 1970ء تک شوگر ملوں کی تعداد 20 ہوگئی اور 1980ء تک یہ تعداد 34ہوچکی تھی۔ اَسی کی دہائی میں 26 نئی شوگر ملز کے قیام کے بعد ان کی تعداد 60 تک جاپہنچی۔ تاہم 1990ء کے بعد سے موجودہ صدی کی پہلی دہائی تک نئی شوگر ملز کے قیام کی رفتار سست رہی اور اس عرصے میں صرف 19 نئی شوگر ملز لگائی گئیں۔ پاکستان میں شوگر مل لگانے میں سیاست کا کلیدی کردار ہے۔ چاہے شوگر مل لگانی ہو یا اس کے لیے فنانسنگ۔ شوگر ملز کو سبسڈی، برآمد کرنے کی اجازت اور چینی درآمد کرنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ شوگر ملز مالکان کا حکومتی پالیسیوں پر کتنا اثر و نفوذ ہے۔ یہ پالیسیاں عوام کی نظر سے نہیں بلکہ شوگر ملز مالکان کے نکتہ نظر سے بنائی جاتی ہیں۔ یہ ایک قسم کا کارٹیل ہے اور ان کی ایسوسی ایشن بھی بہت طاقتور ہے۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین سکندر خان نے چینی شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی حمایت کی تاکہ ذخیرہ اندوزی، کارٹیلائزیشن اور قیمتوں پر ناجائز منافع خوری کو روکا جا سکے۔ چینی کے شعبے کو بھی ڈی ریگولیٹ ہونا چاہیے۔ ایک زمانے میں چاول ریگولیٹڈ شعبہ تھا اور اس میں مسائل درپیش ہوتے تھے، تاہم جب سے یہ شعبہ ڈی ریگولیٹ ہوا ہے تو اس میں کوئی بحران نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ چینی کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بعد بھی حکومت کو پانچ لاکھ ٹن تک بفر اسٹاک رکھنا چاہیے، تاکہ چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھا جاسکے۔ 80 کی دہائی بھی چینی چوروں کی دُہائی دیتے گزری۔ 90 کی دہائی میں چینی کا بحران عروج پر اور سیاست کا حصہ رہا۔ مشرف کا دور ہو یا پیپلزپارٹی کا دور اقتدار، نوازشریف کا زمانہ ہو یا نیا پاکستان کے ستون جہانگیرترین اور خسرو بختیار ہوں، فیلڈ مارشل کا دور آگیا مگر چینی بحران جاری ہے اور چینی چور تاحال گرفت سے باہر ہیں۔ ”چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جا ئے گا” یہ ہیڈ لائین 1972ء کے اخبارات کی ہے جس کا عکس دیکھا تو مرحوم منو بھائی کے یہ اشعار یاد آئے
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں کولوں
چوراں، ڈاکواں، قاتلاں بارے کیہہ پُچھدے او
دتی اے کدی کسے نے اپنے جرم دی آپ گواہی؟
ڈاکواں کولوں ڈاکواں بارے کیہہ پچھدے او
‘ چینی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ 1972 کے اخبارات کا عکس دوبارہ چھپا تو معلوم ہوا کہ 53 سال بعد بھی ہم زیرو پوائنٹ پر ہیں۔ کچھ بھی جواب کی صورت سامنے آ جائے گا۔ چینی ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے کی اجازت کون دیتا ہے؟ اس کے بعد آپ کو ”شوگر مافیا” اور ان کے ”طریقہ واردات” سمجھ آجانا چاہیے۔کوئی اس ملک کو ایشئین ٹائیگر بنانے کا خواب، کوئی روٹی کپڑا مکان کے سبز باغ دکھاتا آیا ہے، کوئی نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب مل کر بھی اس ملک کے عوام کو ”چینی چوروں” یا ”شوگر مافیا” سے نجات نہیں دلا سکتے۔سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے بقول حکومت تحریک انصاف کی ہو، ن لیگ کی یا پیپلزپارٹی کی ہو، وہ چینی مافیا کے سامنے کھڑی ہو ہی نہیں سکتیں۔ حکومتیں چھوڑیں ان کے سامنے فوج بھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔ میں یہ گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں زیدی کے بقول پاکستان میں چینی کے نام کھلواڑ ہر دور حکومت میں ہوا۔
پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو حقائق معلوم نہیں ہیں کہ ملک میں موجودہ کل 84شوگر ملوں میں سے 80فیصد سیاست دانوں کی ہیں۔ پاکستان کی پوری شوگر انڈسٹری میں ایک بھی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں ہے۔ وہ چینی کے بادشاہ ہیں۔ چینی جب مل میں بنتی ہے اور اس کے بعد سے جب بکتی ہے، چینی ملز ایک سال نقصان شو کرتی ہیں اور دو تین سال میں سارے پیسے پورے کر لیتی ہیں۔ نصف صدی سے چینی ہی پکڑ میں نہیں آ رہی۔ شریف فیملی اور ان کے رشتہ داروں کی ملکیت میں 6شوگر ملز ہیں، جن میں حمزہ شوگر ملز، رمضان شوگر ملز، ایچ وقاص شوگر ملز اور اتفاق شوگر ملز شامل ہیں۔ نواز شریف صاحب کے رشتہ دار عبداللہ شوگر ملز، چنار شوگر ملز، چودھری شوگر ملز، کشمیر شوگر ملز اور یوسف شوگر ملز کے مالک ہیں۔ صدر آصف علی ملز، سکرنڈ شوگر ملز، کرن شوگر ملز شامل ہیں جبکہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف بھی اشرف شوگر ملز کے مالک ہیں۔ چودھری شجاعت حسین بھی پنجاب میں شوگر ملز کے مالک ہیں۔ جی ڈی اے کی فہمیدہ مرزا، مرزا شوگر ملز اور پنجریو شوگر ملز کی مالک ہیں۔ جہانگیر ترین تین شوگر ملز، ڈی ڈبلیو ون، ڈبلیو 2شوگر ملز اور گلف شوگر ملز کے مالک ہیں۔
معروف صحافی رؤف کلاسرہ کے بقول پاکستان کے پاس ایسی مشین ہے جہاں دن رات ڈالرز چھاپے جاتے ہیں اور ہر طرف ڈالرز برس رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب لاکھوں کی کرپشن یا غبن کو بھی بڑا اسکینڈل سمجھا جاتا تھا۔ ایسی خبر سب کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ پھر لوگ لاکھوں کی کرپشن کو معمول سمجھنے لگے۔ لاکھوں کروڑوں کی کرپشن کی خبر معمول بن کر رہ گئی۔ اب اربوں کی خبریں آنے لگیں۔ اربوں روپے کی کرپشن بھی نارمل خبر بنی تو پھر ڈالرز میں اسکینڈل رپورٹ ہونے لگے۔ بجلی گھروں کو فی یونٹ ریٹ ڈالروں میں دیا جانے لگا۔اب دو خبریں ہمارے سامنے ہے جس میں دو وزیراعظم ملوث ہیں؛ ایک سابق وزیراعظم اور دوسرے موجودہ۔ خبر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے وزیراعظم شہباز شریف کے اس حیران کن فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں کہ انہوں نے تین سو ملین ڈالرز کی چینی بیرونِ ملک سے منگوانے کی منظوری کیوں دی ہے؟ اس طرح ایک اور خبر نجکاری کی قائمہ کمیٹی میں سامنے آئی کہ عمران خان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پاکستانی پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں’ ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا مجھے عمران خان نے کہا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ سمیت کچھ یورپی ممالک میں پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی لگ گئی تھی جس وجہ سے پی آئی اے کو 600 ملین ڈالرز نقصان ہوا ہے۔ اب ان دونوں خبروں کو دیکھیں کہ ہمارے حکمران کتنی بے دردی سے ڈالرز اُڑاتے
قدم قدم پہ بڑی سختیاں ہیں جاں کے لیے
کئی فریب کے عشوے ہیں امتحاں کے لیے
چائے سے لے کر مشروبات اور مٹھائیوں کی تیاری تک پاکستان میں چینی کا استعمال ہر گھر کی ضرورت ہے۔ چینی کی امپورٹ ایکسپورٹ کے علاوہ ہر سال گنے کے کرشنگ سیزن میں قیمتوں کے تعین، کسانوں کو ادائیگی میں تاخیر تک، مختلف نوعیت کے تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں شوگر ملز ایک کارٹیل کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ تاثر اس لیے ہے کہ اکثر شوگر ملز سیاسی افراد کی ملکیت ہیں۔ موجودہ بحران نے اس وقت جنم لیا جب حکومت نے 750000ٹن چینی درآمد کرنے کا حکم دیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 750000ٹن سے زائد چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ ملک میں چینی کی قیمت 200روپے کلو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ عوام بے چارے پریشان ہیں کہ وہ بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کریں یا پٹرول اور چینی اسٹاک پورا کریں
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
تاہم تیس جون 2025ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں 750000ٹن چینی کی برآمد کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے ذریعے شوگر ملز نے چینی برآمد کر کے غیر ملکی زرمبادلہ کی صورت میں آمدنی حاصل کی تو اس کی قیمت بڑھ گئی۔ شوگر مل لگانے کے لیے سیاسی طور پر لائسنس کی ایک طویل تاریخ ہے اور معاشی اور کمرشل بنیادوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر شوگر مل لگانے کی وجہ سے اس شعبے میں حالات خراب ہو ئے۔ گھریلو صارفین پر اگر چینی پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے تو حکومت کے ریونیو پر کوئی فرق نہ پڑے گا کیونکہ زیادہ مقدار میں چینی انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے۔ تاہم گھریلو صارفین کے لیے سیلز ٹیکس کے چینی پر خاتمے سے اس کی قیمت کو نیچے لایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف کمیٹیاں بنائی جاتی رہیں گی یا: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں!