اخلاقی پستی (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

ہندوستان ایک ایسی سر زمین ہے جو شروع سے مذہبی و ابستگی میں ممتاز رہی ہے۔ بودھ مذہب ہویا جین مت، ایران سے آیا ہوا پارسی مذہب ہو، یا خود ہندوستان میں پیدا ہونے والا سکھ دھرم، ہندو مذہب ہو یا حق و سچائی کا آخری او رمکمل ترجمان مذہب اسلام، ان سب کے نقوش اس ملک کے چپے چپے پر ثبت ہیں اور یہاں کی تہذیب و ثقافت ان کے گہرے اثرات سے خالی نہیں ہے۔

مذہب خواہ کوئی بھی ہو اور عقیدہ و عمل میں خواہ کسی قدر بھی اختلاف ہو، شرافت، اخلاق اور انسانیت کا پیغامبر ہوتا ہے، اس لئے روا داری، مروت اور بردباری ہندوستان کی اصل فطرت ہے، اگر اس ملک کی فطرت میں یہ عنصر نہ ہوتا تو مختلف قوموں کو یہاں پناہ نہ ملی ہوتی اور یہ تہذیبوں اور قوموں کا گلدستہ نہ بنا ہوتا لیکن کیا ہم نے اپنی اس قومی روایت کو باقی رکھا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں چاہےے کہ آپ اپنا امتحان لیں اور خود اپنا احتساب کریں، جب حالات معتدل ہوں، اس وقت انسان کے اخلاق اور سلوک کی آزمائش نہیں ہوتی، انسان غیرمعمولی حالات میں ہی پہچانا جاتا ہے، الیکشن بھی آزمائش کی کسوٹی ہے، یہ موقع مفادات کے ٹکراو، نظریات کے تصادم اور ہندوستان کی سیاست میں مختلف خاندانوں کی ہوس اقتدار کا ہوتا ہے، اس موقع سے ہمارے اخلاق کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے اور اندرونی جذبات ابل پڑتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے سیاسی قائدین نے کیا کچھ نہیں کہا اور نہیں سنا؟ ایک دوسرے کے خلاف کیسے اوچھے ریمارک کیے اور پھر کیسے ناشائستہ جوابی حملے کیے؟ خود ہمارے مسلمان قائدین نے ایک دوسرے کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا؟ تقریروں میں ایک دوسرے کے نجی حالات بلکہ اس کی کئی پشتوں کے حالات بیان نہیں کیے گئے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک دوسرے کی عزت و آبرو کو بھی نشانہ بنایا گیا؟ یہ ہماری اخلاقی پستی اور فکری دناءت کا مظہر ہے، اپنے نظریات کو پیش کرنا اور مخالف نظریہ پر تنقید کرنا بری بات نہیں بلکہ جمہوریت کا ضروری حصہ ہے، معیاری تنقید سے بڑھ کر جمہوریت کےلئے کوئی قیمتی تحفہ نہیں ہوسکتا لیکن ضروری ہے کہ تنقید ہو نہ کہ تنقیص اور تنقید ادب و شائستگی کے دائرے میں ہو۔
جب نفس پر چوٹ پڑے اور اپنے کردار کو ٹھوکر لگے، وہی وقت انسان کے اخلاقی معیار کو پرکھنے کا ہوتا ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو کشتی میں کسی کو زیر کردے بلکہ حقیقی بہادر وہ ہے، جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ (بخاری) ایک بار ایک صاحب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نصیحت کرنے کی خواہش کی، آپ نے ارشاد فرمایا: ”غصہ نہ کرو۔“ وہ باربار آپ سے نصیحت کی خواہش کرتے رہے اور آپ ہر بار یہی ارشاد فرماتے رہے کہ غصہ نہ کرو۔ (بخاری) حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کے بعد صحابہ سے خطاب فرمایا، آپ نے اس خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ مزاج کے اعتبار سے انسان مختلف نوع کے ہوتے ہیں، ان میں سب سے بہتر وہ ہے جس کو غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے اور سب سے خراب شخص وہ ہے جس کو غصہ آئے جلدی اور جائے دیر سے۔ (ترمذی) اس لئے انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی مسائل میں اس سے بھی بڑھ کر غیظ و غضب کو قابو میں رکھنا چاہیے کہ حد اعتدال سے بڑھتا ہوا غصہ، نفرت اور حسد کا جذبہ ہی انسان کو بے قابو کر دیتا ہے اور غیر معتدل بنا دیتا ہے۔
نرم خوئی اور نرم کلامی سے وہ کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، جو تند مزاجی، یاوہ گوئی اور کردار کشی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نرم خو ہیں، نرم خوئی کو پسند فرماتے ہیں اور نرم خوئی پر وہ کچھ عنایت کرتے ہیں، جو تند خوئی پر نہیں دیتے۔ (مسلم) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوب ارشاد فرمایا کہ نرمی جس چیز میں بھی ہو اسے آراستہ اور خوبصورت بنا دے گی اور جو چیز نرمی سے محروم ہوگی، وہ بد نمائی سے خالی نہ ہوگی۔ (مسلم) اس لئے تنقید اگر صالح اور تعمیری ہو، شریفانہ ہو اور حدود ادب میں ہو، تو ایک بہتر چیز ہے لیکن اگر تنقید کا منشا کردار کشی اور ذاتیات پر حملہ کرنا ہو، تویہ نہایت قبیح، غیر اسلامی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔
قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتی زندگی کا بہت تفصیلی نقشہ کھینچا ہے، اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون کی طرف دعوت اسلام دینے کےلئے مامور فرماتے ہیں، فرعون کی سنگ دلی، اس کا ظلم و جور، کفر پر اس کا اصرار بلکہ اپنی خدائی کا دعویٰ محتاج اظہار نہیں لیکن اس کے باوجود حکم ہوا کہ ان کو نرمی کے ساتھ دعوت دینا، شاید اسے عبرت ہو اور اس میں خدا کا خوف پیدا ہو۔ مقامِ فکر ہے کہ فرعون جیسے ظالم و جابر اور متکبر کافر کے ساتھ بھی نرم گفتاری کی تلقین کی جا رہی ہے، قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی چال ڈھال بھی تواضع اور فروتنی کا مظہر ہوتی ہے، اور جب اوچھے قسم کے لوگ ان سے ناشائستہ باتیں کہتے ہیں تو وہ ان سے بھی کلمہ خیر کہہ کر ہٹ جاتے ہیں۔ (الفرقان)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہاں عزتِ نفس کا اس درجہ خیال تھا کہ غیر مسلموں میں بھی جو اصحاب وجاہت ہوتے، آپ ان کا لحاظ فرماتے۔ آپ نے بادشاہ روم ہرقل کو خط لکھا تو ”عظیم الروم “ کے لفظ سے خطاب فرمایا، یعنی روم کا عظیم شخص۔ بعض صحابہ کو اس تعبیر پر تامل تھا ؛ لیکن آپ نے فرمایا کہ ان کو اسی طرح کہتے ہیں۔ بعض سرداران قبائل کو از راہِ احترام آپ نے اپنا تکیہ پیش فرمایا۔ ابوسفیان اہل مکہ کے سردار تھے، فتح مکہ کے موقع سے آپ نے ان کا اعزاز کرتے ہوئے فرمایا: جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے امن ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا سلوک و برتاو غیرمسلموں اور اعدائے اسلام کے ساتھ تھا اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جس پر انسانیت شرمائے اور جس سے شرم و حیا کو عار آئے۔
یہ کردار کشی جو اسٹیج پر ہوتی ہے اور پوسٹر اور اخباری اشتہار کو بھی اس کےلئے ذریعہ ووسیلہ بنایا جاتا ہے اور سوال و جواب، پھر جواب الجواب اور اس کے بعد اس جواب کا جواب جو کیا جاتا ہے اور لوگوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے میں جس چوکسی اور مہارت کا ثبوت دیا جاتا ہے، وہ مسلمانوں کےلئے سراسر باعثِ شرم و عار ہے، باہمی کردار کشی اور آبرو ریزی کے بغیر بھی ہم اپنا مدعا لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور ہم اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، ہماری یہ اخلاقی پستی اور دناءت عام مسلمانوں کو غلط اشارے دیتی ہے، جب مسلمانوں کے قائدین اور محترم شخصیتیں ہی اس سطح پر اتر آئیں تو عوام سے کیوں کر توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے دور رکھ سکیں گے؟ جس سفینہ کا ناخداہی آداب سفر سے بے بہرہ ہو، کون ہے جو اسے ساحل سے ہمکنار کرے؟ کاش ہمارے سیاسی قائدین اور ان قائدین کے معاونین و انصار جو بہر حال اس ”خیرات“ ہی کا ایک حصہ ہیں، اس حقیقت پر غور کریں!