جماعت اسلامی کے تحت شاہراہ فیصل پر عظیم الشان غزہ ملین مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت عوام کا سمندر امڈ آیا۔امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے غزہ ملین مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی تو ا ن کا نان نفقہ بند کر دیں گے، شہباز شریف حماس کی حمایت کریں ورنہ انہیں بھاگنے کیلئے ایئر لفٹ بھی میسر نہیں آئے گی۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ غزہ کے لوگ استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں، اہل فلسطین مسلسل 2سال سے مزاحمت کررہے ہیں، حماس نے یو این چارٹر کے مطابق ہتھیاراٹھائے ہیں، امریکا اسرائیل کو طاقت فراہم کرتا ہے، کراچی والوں کو بڑی تعداد میں مارچ میں شرکت پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دنیا کو ایسی اقوام متحدہ کی ضرورت نہیں جس پر امریکا کی اجارہ داری ہے، امریکا کے کہنے پر اپنا موقف پیش نہ کرنا بزدلانہ عمل ہے، اسرائیل کو ناجائز طریقے سے فلسطین پر مسلط کیا گیا، وہاں ایک ہی ریاست ہے اور وہ فلسطین ہے، اسرائیل فلسطین پر قابض ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کی ریاست کو قبول کیا جائے، اگر کوئی قوت موجود ہے تو وہ حماس ہے، حماس والے مذاکرات کی ٹیبل پر بھی لڑ رہے ہیں، ہتھیار بھی نہیں ڈالے ہیں، شہباز شریف دو ریاستی حل کی بات نہ کرو، ڈپلومیسی حماس سے سیکھ لو، فلسطینیوںکی قربانیاں 66ہزار تک پہنچ گئی ہیں، حافظ نعیم نے کہا کہ کچھ مسلم حکمرنوں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے، کچھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ن لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے فلسطین کے حق میں کتنا احتجاج کیا۔ تحریک انصاف نے الیکشن جیتا، میں مانتا ہوں کہ عمران خان سیاسی قیدی ہیں، عمران خان جیل سے امریکا اور اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین و حماس کی حمایت کریں۔
امیر جماعت اسلامی نے اپیل کی کہ طوفان الاقصیٰ کے دو سال مکمل ہونے پر 7اکتوبر کو پورے ملک میں عوام اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور صبح 11بجے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح اور پوری دنیا کے باضمیر لوگوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا، پاکستان کی ریاستی پالیسی ایک اور ریاست بھی ایک ہی ہے، جس کا نام فلسطین ہے، اسرائیل کا نام کی جو بھی چیز ہے وہ مقبوضہ فلسطین ہے۔
حکومت حماس کو تسلیم کر کے تنظیم کا پاکستان میں دفتر کھولے، مسلم دنیا کے دیگر ممالک میں بھی حماس کے دفاتر قائم کیے جانے چاہیے۔ اقوام متحدہ یہ مسائل حل نہیں کر سکتی۔حکمرانوں کو کہتا ہوں کہ قوم کی امنگوں کے برعکس اقدام نہ کرنا، نہیں تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ حماس کسی بیرونی طاقت کو قبول بھی نہیں کر رہی، تاہم ساتھ ہی اپنی کمال بصیرت اور سفارتکاری کے ذریعے مذاکرات بھی کر رہی ہے، مصر میں ہونے والی بات چیت اس بات کی علامت ہے کہ اگر کوئی قوت موجود ہے تو وہ صرف حماس ہی ہے۔

