پاکستان میں حکومتیں کئی طرح کی مفت اسکیمیں اور خیراتی پروگرام متعارف کراتی ہیں ، ان پروگراموں اور اسکیموں پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور پھر ان پروگراموں کی تشہیر اپنی تصاویر کے ساتھ کی جاتی ہے جس پر الگ سے کروڑوں روپے کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں ۔ یہ اسکیمیں اور پروگرام ہمیشہ مہنگے پڑتے ہیں اور اکثر مکمل بھی نہیںہوتے اور ادھورے رہ جاتے ہیں یا ایک حکومت اپنے نام سے ایک پروگرام متعارف کراتی ہے تو دوسری حکومت آ کر اسے ختم کر دیتی ہے اور اپنے نام سے کوئی نیاپروگرام یا اسی کی شکل تھوڑی تبدیل کر کے نیا نام دے کر شروع کر دیتی ہے ۔ یہ اسکیمیں اور پروگرام عوام اور ملکی خزانے کو ہمیشہ مہنگے پڑے ہیں۔ یہ پروگرام عارضی ہوتے ہیں جو وقتی طور پر سیاست چمکانے اور اپنا نام بنانے کیلئے متعارف کرائے جاتے ہیں، ان سے ملک کو مستقل بنیادوں پر کسی طرح کا بھی فائدہ نہیں ہوتا۔
اگر ان مفت اسکیموں اور پروگراموں کی بجائے حکومت وہی کروڑوں اربوں روپے صنعتوں کے قیام پر خرچ کرے تو اس سے ملک کو کہیں زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ تمام ترقی یافتہ ممالک معاشی مضبوطی سے ترقی کرتے ہیںاور معاشی مضبوطی کے لیے صنعتوں کا بڑے پیمانے پر قیام ناگزیر ہے۔ کوئی ملک مفت اسکیموں اور پروگراموں سے ترقی نہیں کر سکتا، بلکہ اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ کارخانے اور فیکٹریاں قائم کی جاتی ہیں جو ملکی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی اور نئی ایجادات ملک کو ترقی دیتے ہیں جس کے لیے تعلیمی و تربیتی معیار کو بلند کرنا ضروری ہے تاکہ نوجوانوں میں تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوں اور وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئی ایجادات کے قابل ہو سکیں۔
صنعتوں کے قیام سے ملک میں بے روزگاری خاتمہ ہوگا، لوگوں کو روزگار ملے گا تو انہیں حکومت کی طرف سے مفت اسکیموں کی ضرورت نہیں رہے گی، وہ اپنے لیے خود گھر کا انتظام کر سکیں گے، اپنے لیے راشن اور دیگر اشیائے ضروریہ لے سکیں گے ۔ اگر صنعتوں کے قیام کے بعد ملکی خزانہ اس کا متحمل ہو سکے تو عوام کو ضرور مفت اسکیمیں دینی چاہئیں لیکن پہلے تو ابتدائی اور ضروری اقدامات کرنے چاہئیں کہ فیکٹریاں اور کارخانے بنا کر عوام کو روزگار دیا جائے اور ملک کو قرضوں سے نجات دلائی جائے۔ اس طریق کار میں تو کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ قرضے لے کر ملک کو چلایا جائے اور ان قرضوں سے کچھ تو سیاستدانوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات پر خرچ کر دیا جاتا ہے اور کچھ کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے مفت اسکیمیں اور خیراتی پروگراموں میں خرچ کر دیا جاتا ہے اور پھر ملکی نظام چلانے کے لیے دوبارہ قرضوں کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔
اگر انہی قرضوں کو درست جگہ پر لگا دیا جائے اور عارضی منصوبوں کی بجائے درست حکمت عملی کے ساتھ مستقل منصوبے بنائے جائیں جن سے عوام کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی مستقل فائدہ حاصل ہو اور یہ کسی حکومت کے نام سے شروع کرنے کی بجائے عمومی طور پر شروع کیے جائیں تاکہ کوئی دوسری حکومت انہیں خراب کرنے کی کوشش نہ کرے ان منصوبوں کو سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف منسوب کرنے کی بجائے قومی ہیروز کی طرف منسوب کیا جائے ۔ تمام شہروں کے ساتھ بہترین اقتصادی زونز قائم کیے جائیں جن میں کئی طرح کی سہولیات دی جائیں۔ جیسے بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی ، پانی کا وافر انتظام ، غیرملکی سرمایہ داروں کے لیے سیکیورٹی کا انتظام، ٹیکس میں خصوصی رعایت اور دیگر کئی طرح کی پرکشش مراعات دے کر سرمایہ داروں کو متوجہ کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح رجسٹریشن اور لائسنس وغیرہ کے لیے ون ونڈو سہولت فراہم کی جائے تاکہ ان کے حصول میں غیر ضروری تاخیر کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
صنعتی ترقی سے ملکی معیشت مضبوط ہو گی جو عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرے گی اور انہیں خیراتی اسکیموں کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ اس سے ملک ترقی کرے گا جس سے دنیا میں نام اور مقام حاصل ہو گا۔ عصر حاضر معاشی مسابقت کا زمانہ ہے جو قوم معاشی لحاظ سے مضبوط ہے وہ دنیا میں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اور جس قوم کی معیشت مضبوط نہ ہو اسے ملکی نظام چلانے کے لیے قرض اور امدادیں لینی پڑتی ہوں اس کی دنیا میں کہیں عزت نہیں ہوتی ۔ اس لیے ہمیں معاشی لحاظ سے مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے صنعتوں کا قیام پہلا قدم ہے۔